معك کے معنی ہیں،اس کامیلان تمہاری طرف ہے۔أصغیتَ إلى فُلان کہ اسکی طرف تم نے کان لگایا۔حدیث مبارکہ میں ہے:((یُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَىٰ إِلَيْهِ))کہ صور پھونکا جائے گا تو کوئی سننے والا ایسا نہ ہوگا جو اس کی طرف اپنی گردن نہ موڑ لے۔اسی طرح محاورہ ہے:الصّبي أعلم بمصغی خدّه کہ بچہ اپنی آغوش مہر و محبت کوخوب پہچانتا ہے۔اسی سے ہے:صغت الشمس والنجوم کہ سورج اور ستارے زمین کی طرف جھک گئے۔ہرّہ والی حدیث میں ہے:کان یُصغِي لھا الإناء کہ اس کیلئے برتن کو جھکا دیتے تھے تاکہ وہ آسانی سے پانی پی سکے۔برتن کے جوف کو ’صغو‘ کہتے ہیں کیونکہ چیز اس میں مجتمع ہوجاتی ہے۔[1]
ابن بری نے الإصغاء بالسّمع(کسی کی طرف کان لگانا)کے ثبوت میں شاعر کا مندرجہ ذیل شعر پیش کیا ہے:
تَرَی السّفِيهَ بِهِ عَن کُلّ مَكْرُمَةٍ زَیْغٌ وفِيهِ إِلَى التَّسْفِيهِ إِصْغَاء[2]
کہ نادان انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ عز و شرف کی ہر بات سے منہ موڑتا ہے اور سفاہت کی باتوں کی طرف کان لگاتا ہے۔
ذو الرّمہ اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے:
تُصْغِي إِذَا شَدَّهَا بِالکُورِ جَانِحَةً حَتّی إِذَا مَا اسْتَوَی فِي غَرْزِهَا تَثِبُّ[3]
کہ جب وہ اس پر کجاوہ کستا ہے تو وہ گردن موڑ کر کان لگاتی ہے،یہاں تک کہ جب وہ اس کے رکاب میں پاؤں رکھ دیتا ہے تو وہ جھپٹ پڑتی ہے۔
اعشیٰ اپنے کتے کی آنکھ کا ذکر کرتا ہے:
تَرَی عَیْنَهَا صَغْوَاءَ فِي جَنْبِ مُؤقِهَا تُرَاقِبُ کَفّي وَالْقَطِیعَ المُحَرَّمَا[4]
کہ اس کی آنکھ گوشۂ چشم کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے اور وہ میری ہتھیلی اور مضبوط بٹے ہوئے کوڑے کو دیکھتی ہے۔
نمر بن تولب إصغاء إناء کا محاورہ انڈیل دینے کے معنی میں استعمال کرتاہے:
وَإِنَّ ابْنَ أُخْتِ الْقَوْمِ مُصْغًى إِنَاؤُهُ إِذَا لَمْ یُزَاحِمْ خَالَهُ بِأَبٍ جَلْدِ[5]
کہ قوم کے بھانجے کی حق تلفی کی جاتی ہے اگر وہ اپنے مامووں کی ایک بہادر باپ سے مزاحمت نہ کرے۔
|