مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنے تمام تفسیری اجزاء میں بحیثیت مجموعی 268 اشعار سے استشہاد کیا ہے،جن میں سے 47 اشعار سے صرف سورۂ بقرہ کی تفسیر میں استدلال کیا گیا ہے،جبکہ سورۂ فاتحہ،سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص میں کسی شعر سے استشہاد نہیں کیا گیا ہے۔
ذیل میں ہم مولانا کی تفسیر سے بعض ان مقامات کاتذکرہ کرتے ہیں،جہاں مولانا نے کلامِ عرب سے استشہاد کیا ہے:
1۔ آیتِ کریمہ﴿فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا﴾[1]کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’اس کے متعلّق بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ لفظ ہوا کے علاوہ کسی اور چیز کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔[2]اس سے اختلاف کرتے ہوئےمولانا لکھتے ہیں کہ صفات کا ذکر ’ف‘ کے ساتھ ہو تو اس بات کی دلیل ہےکہ ان صفات میں ترتیب ہے او ریہ بھی سمجھا جاتا ہےکہ یہ سب ایک ہی چیز کی صفات ہیں۔اس لئے ان مفسرین کا مذکورہ خیال نظائرِ قرآنی او رکلامِ عرب کے خلا ف ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:﴿وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا()فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا()فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا()فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا()فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا﴾[3] کہ گواہی دیتے ہیں وہ جو ہانپتے دوڑتے ہیں،پھر ٹھوکروں سے چنگاریاں نکالتے ہیں،پھر صبح کو دھاوا کرتے ہیں پھر غبار اُڑاتے ہیں،پھر غول میں گھس جاتے ہیں۔
اس تفصیل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ زیرِ نظر آیات میں مذکورہ صفات ایک ہی چیز سے متعلّق ہیں نہ کہ علیحدہ علیحدہ،جیسا کہ ابن زيّابہ کے شعر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
يَا لَهْفَ زَيَّابَةَ لِلْحَارِثِ الصَّ ابِحِ فَالغَانِمِ فَالآيبِ[4]
کہ زيابہ کی طرف سے حارث پر افسوس ہے جس نے غارت گری کی،مال غنیمت لوٹا اور لوٹ گیا۔‘‘[5]
2۔ آیتِ کریمہ﴿وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ﴾[6]پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اس کا ایک مفہوم بادل بھی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:﴿وَقِيلَ يَاأَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَاسَمَاءُ أَقْلِعِي﴾[7] کہ اے زمین اپنا پانی جذب کرلے اور اے آسمان(بادل)تھم جا۔اس آیت میں﴿وَالسَّمَاءِ﴾سے مراد مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک بادل ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اوپر ہواؤں کی قسم کھائی گئی ہے۔ہواؤں اور بادلوں کی
|