وَقُلْ لَهُمْ بَادِرُوا بِالْعُذْرِ وَالْتَمِسُوا قولًا يُبَرّئِكُمْ أَنّي أَنَا المَوْتُ[1]
کہ ان سے کہو:جلد از جلد معذرت پیش کرو،یعنی کوئی ایسی بات تلاش کرو جو تمہیں بے گناہ ثابت کر دے۔ورنہ میں موت ہوں،تمہاری خیریت نہیں ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے سورۂ توبہ سے ’واؤ بیانیہ‘ کی ایک مثال پیش کی ہے:﴿وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللّٰهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ﴾[2]
بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ آیتِ کریمہ میں ایمان باللہ اور جہاد دو الگ الگ چیزیں ہیں۔مگر مولانا کہتے ہیں کہ﴿وَجَاهِدُوا﴾،﴿أَنْ آمِنُوا بِاللّٰهِ﴾کی تفسیر ہے۔اسی طرح﴿وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ﴾،﴿اسْتَأْذَنَكَ﴾کی توضیح ہے۔[3]
اس اہم اسلوب کی وضاحت اسی سورت کی ایک اور آیت سے ہوتی ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً﴾[4] اس آیتِ کریمہ میں﴿مِنَ الْكُفَّارِ﴾کی تاویل میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں:1۔اس سے مراد رومی ہیں۔2۔اس سےمراد قریضہ،نضیر اور خیبر کے یہود ہیں۔3۔دیلم مراد ہیں۔4۔عرب کے مشرکین ہیں۔5۔اس میں کوئی گروہ مراد نہیں ہے بلکہ اقرب فالاقرب کےاصول پر تمام ہی مشرکین سےجنگ کی جائے گی۔([5]
اس آیت کریمہ کی تاویل اگر مولانا فراہی رحمہ اللہ کےاصول کی روشنی میں کی جائے تو مراد واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت میں﴿مِنَ الْكُفَّارِ﴾،﴿الَّذِينَ﴾کا بیان ہے اور اس سے مراد منافقین ہیں۔﴿وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً﴾،﴿قَاتِلُوا﴾کی وضاحت ہے۔﴿يَلُونَكُمْ﴾کا لفظ معاشرتی اعتبار سے مسلمانوں اور منافقین کے قریبی تعلّق کی تصویر پیش کر رہا ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مطابق آیتِ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں مخلص اہل ایمان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تم سب سےزیادہ منافقین سے چوکنے رہو،ان کا معاشرتی بائیکاٹ کرو،ان کے ساتھ نرمی،ہمدردی اور ملاطفت کا رویہ نہ اپناؤ،کیونکہ یہ آستین کے سانپ ہیں۔یہ رہتے تو ہیں تم سب سے بہت قریب لیکن ہمیشہ تمہیں نقصان پہنچانے کےلیےکسی مناسب وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
آیت کی یہ تاویل اس سورہ کے تفصیلی مضمون،سیاق و سباق اور نظم کلام سے بھی واضح طور پر مربوط اور ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔[6]
|