جب بلند جگہوں سے پانی اترنا شروع ہوجائے تو آپ سوار ہوجائیں۔[1]
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ(التنور)سے روٹیاں پکانے والا گھر کا تنور مراد ہے۔
"قال:اذا رأیت تنور أ یخرج منه الماء،فاته هلاكقومك" فرماتے ہیں:
کہ جب آپ اپنے اہل کے تنور سے پانی نکلتا دیکھیں تو یہ تیری قوم کی ہلاکت ہوگی۔[2]
12۔امام بغوی رحمہ اللہ قوم نوح پر نزول عذاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
﴿وَفَارَ التَّنُّورُ﴾میں لفظ(التنور)میں اہل علم کا اختلاف ہے۔عکرمہ اور زہری کے نزدیک اس سے زمین کا چہرہ(یعنی سطح زمین)مراد ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے طلوع فجر اور صبح کا نور مراد ہے۔حسن بصری رحمہ اللہ،مجاہد رحمہ اللہ اور شعبی رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے روٹیاں پکانے والا حقیقی تنور مراد ہے اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حسن کہتے ہین کہ یہ پتھر کا تنور تھا جس پراماں حوا،روٹیاں لگایا کرتی تھیں۔پھر وہ حضرت نوح علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگیا۔[3]
13۔امام رازی رحمہ اللہ قوم نوح پر نزول عذاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان:﴿وَفَارَ التَّنُّورُ﴾میں دو قول ہیں:
1۔ اس سے روٹیاں پکانے والا تنور مراد ہے۔یہ مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہما،حسن رحمہ اللہ اورمجاہد رحمہ اللہ وغیرہ۔اب ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کا تنور تھا۔بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا تنور تھا۔بعض نے کہا ہے کہ پتھر سے بنا ہوا اماں حوا کا تنور تھا جو حضرت نوح علیہ السلام کو منتقل ہوا تھا۔اسی طرح انہوں نے اس کے مقام کے بارے میں بھی اختلاف کیا ہے۔
2۔ اس سے روٹیاں پکانے والا تنور مراد نہیں ہے۔اس تقدیر میں پھر متعدد اقوال ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ یہ پانی سطح زمین سے پھوٹا تھا۔بعض نے تنور سے اونچی جگہ مراد لی ہے اور بعض نے طلوع فجر مراد لی ہے۔[4]
14۔امام ابن عطیہ رحمہ اللہ قوم نوح پر نزول عذاب کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"واختلف الناس فی(التنور)فقالت فرقة۔۔۔۔هى الأكثر۔۔۔۔فهم ابن عباس و مجاهد وغيرهما:هو تنور الخبز يوقد فيه،وقالت فرقة:كانت هذا أمارة جعلها اللّٰه لنوح:أى إذا فارالتنور فاركب فى السفينة"
کہ التنور کی وضاحت میں اہل علم کا اختلا ف ہے۔ایک گروہ کے نزدیک اس سے روٹیاں پکانے والاتنور مراد ہے جس میں آگ
|