دوسری زبانوں میں بھی اس قسم کی تند ہوا کے لئے اسی طرح کے الفاظہ ہیں مثلاً فارسی میں اس کو گردباد کہتے ہیں۔انگریزی میں اس کو سائیکلون(Cyclone)کہتے ہیں،ہندی میں اس کے لئے بگولے کالفظ ہے۔مصریوں کے ہاں ہوا کا ایک خاص دیوتا تھا جس کو طائفون کہتے تھے۔اس ہوا کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے شدت کی بارش ہوتی ہے اور سمندر کا پانی جوش میں آجاتا ہے۔میں جب کراچی میں تھا تو اس قسم کاطوفان بچشم خود دیکھا تھا۔بحر ہند کے مشرق سے ایک طوفان اٹھا اور مغرب کی طرف گزر گیا۔اس کے اثر سےنہایت سخت بارش ہوئی۔جہاز ات پہاڑوں سےجاٹکرائے اور دوسرے بھی جانی و مالی بہت سے نقصانات ہوئے۔تورات اور قرآن مجید میں طوفان نوح کے جو حالات بیان ہوئے ہیں وہ اس سے بہت ملتے جلتے ہوئے ہیں۔سورہ قمر میں ہے:
﴿فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ0وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ﴾
کہ ہم نے آسمان کے دروازے موسلادھار بارش کے ساتھ کھول دیئے اور زمین کے تمام چشمے پھوٹ نکلے،پس پانی ٹھہرائے ہوئے اندازہ تک پہنچ گیا۔
اسی طرح تورات کی کتاب پیدائش 11؍7 میں ہے:
’’بڑے سمندر کے سب سوتے پھوٹ نکلے اور آسمان کی کھڑکیاں کھل گئیں۔‘‘ سورہ ہود میں ہے:
﴿وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ﴾
کہ اور وہ کشتی ان کو لے کر ایسی موجوں کے اندر چلی رہی تھی جو پہاڑوں کی طرح بلند ہورہی تھیں۔
جن لوگوں کو سمندر کے سفر کا اتفاق ہوا ہے،وہ جانتے ہیں کہ پہاڑ کی طرح موجوں کا اٹھنا صرف اسی حالت میں ہوتا ہے جب تند ہوا چل رہی ہو۔اس وجہ سے موجوں کاذکر خود بخود اس بات کی دلیل ہے کہ تند ہوا موجود تھی۔اثر کاذکر کرکے موثر کو بتانا عربی زبان کا ایک مشہور طریقہ ہے اور قرآن مجید نے ایک سے زیادہ مقامات میں ہوااور موجوں کے لازم و ملزوم ہونے کو بیان کرکے ان دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کو نہایت قریب الفہم بنا دیا ہے۔مثلاً:
﴿هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ﴾[1]
کہ وہی ہے جوتم کو سفر کراتا ہے خشکی اور تری میں،یہاں تک کہ جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو اور کشتی ان کو سازگار ہوا کے ذریعہ سے لے کرچلتی ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں،آتی ہے اس پر ایک بادتند اور موجیں اٹھنے لگتی ہیں ہرطرف سے۔
علاوہ ازیں﴿وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ﴾(کہ اور وہ ان کو لے چلتی ہے)کے الفاظ کے اندر خود ہوا کا ثبوت موجود ہے کیونکہ قرآن نے دوسری جگہ اس بات کی تصریح کردی ہے کہ اگر اللہ عزو جل ہواکو ٹھہرا دے تو یہ کشتیاں سمندر کی سطح پر کھڑی رہ جائیں۔
﴿وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ()إِنْ يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ﴾[2]
کہ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ پہاڑ کے سے جہازات ہیں جوسمندر میں چلتے ہیں۔اگر خدا چاہے تو ہوا کو روک دے اور یہ سطح
|