Maktaba Wahhabi

227 - 535
پھر ان میں سے پہلے اصول کے تحت لکھتے ہیں: ’’یہ اصول بنیادی اس لئے ہے کہ کوئی بھی کلام ایسے مفہوم کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اس کے نظام کے مخالف اور اس کے معانی کو غیر مربوط کرنے والا ہو۔ربط کلام تو ہر عاقل کے کلام کی خصوصیت ہوتی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کا معجز کلام اس خصوصیت سے خالی کیسے ہو سکتا ہے؟ تفسیر کا یہ اصول نہایت واضح تھا،لیکن بعض منحرف لوگوں نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی اور بعض حدیثیں ایسی گھڑ دیں جن کے با عث نا پختہ عقل رکھنے والے صالح اہل ایمان بھی فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔‘‘[1] ایک جگہ غلط اصول کے زیر عنوان لکھتے ہیں: ’’قرآن کی تاویل حدیث کی روشنی میں کرنا جب کہ حدیث کی تاویل قرآن کی روشنی میں ہونی چاہئے۔‘‘[2] پھر ایک مثال بیان کر کے لکھتے ہیں: ’’یہیں ایک چیز پر خطر اور صحیح بات سے پھسلا نے والی بھی ہے۔وہ یہ کہ قرآن کی بات کو اچھی طرح سمجھنے سے پہلے اگر تم حدیث پر پل پڑو گے جس میں صحیح اور سقیم دونوں طرح کی احادیث ہوں تو تمہارا دل ایسی راویات میں اٹک سکتا ہے جن کی قرآن میں کوئی اساس نہ ہو اور کبھی وہ قرآن کی ہدایت کے برعکس بھی ہوں۔اس کے نتیجہ میں تم قرآن کی تاویل میں اعتماد حدیث پر کرو گے اور تم پر حق و باطل گڈ مڈ ہو جائیں گے۔پس سیدھا راستہ یہ ہے کہ تم قرآن سے ہدایت پاؤ۔اس پر اپنے دین کی نبیاد رکھو،اس کے بعد احادیث پر نگاہ ڈالو۔اگر کوئی حدیث بادی النظر میں قرآن سے ہٹی ہوئی ہو تو اس کی تاویل کلام اللہ کی روشنی میں کرو۔اگر دونوں میں مطابقت کی کوئی صورت نکل آئے تو تمہاری آنکھیں ٹھندی ہو جائیں گی۔اگر اس میں ناکامی ہو تو حدیث کے معاملہ میں توقّف کرو اور قرآن پر عمل کرو۔‘‘[3] نیز لکھتے ہیں: ’’بعض ماخذ اصل و اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی۔اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے اس کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں:1۔احادیث،2۔قوموں کے ثابت شدہ اور متفق علیہ حالات،3۔گزشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں۔‘‘[4] ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں: ’’احادیث و روایات کے ذخیرہ سے صرف وہی چیزیں چنی جائیں جو نظم قرآن کی تائید کریں،نہ کہ اس کے تمام نظام کو درہم برہم کردیں۔“[5]
Flag Counter