Maktaba Wahhabi

221 - 535
کبهی گفتگو مسلمانوں سے ہوئی ہے اور کبھی کافروں سے،کبھی خطاب ماضی کے لوگوں سے ہوتا ہے اور کبھی حال کے لوگوں سے کبھی عبادت زیر بحث آتی ہے اور کبھی معاملات۔کبھی ترغیب ہوئی ہے اور کبھی تربیب،کبھی بشارت ہوتی ہے تو کبھی انذار،کبھی دنیا زیر بحث ہوتی ہے کبھی آخرت بسا اوقات درپیش مسائل اور پریشانیوں کابیاں ہوتا ہے اور بسا اوقات گزرے ہوئے قصے اور داستانیں مذکور ہوتی ہیں۔جب نزول کے اسباب اس قدر مختلف اور ایک دوسرے سے اتنے جدا ہیں کہ ان میں وحدت اور ہم آہنگی کا کوئی موقع نہیں ہے تو انہی اسباب میں نازل ہونے والا قرآن بھی اسی درجہ کے اختلاف کا مظہر ہوگا۔آخر کوئی صاحب عقل گوہ اور مچھلی کے درمیان،آگ اور پانی کے درمیان اور ملاح اور حدی خواں کے درمیان مناسبت کیسے تلاش کرے گا۔کیا یہ ان لوگوں کے لئے شک کا دروازہ کھولنے اور اس دائرے کو وسیع کرنے کے مترادف نہ ہو گا جن کے دلوں میں حرض ہے یا جن کی بیماری محض جہالت اور کوتاہی ہے۔جب یہ مریضاں قلب دیکھیں گے کہ اہل قرآن کی تمام آیتوں کے درمیان مناسبت پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس پر علیحدہ کتابیں تصنیف کر رہے ہیں تو انہیں یقین ہو جائے گا کہ یہ ایک ناگزیر علم ہے اور یہ کہ قرآن اسی وقت بلیغ اور معجزہ مانا جائے گا،جب کہ مناسبت کی وجوہ ظاہر ہو جائیں اور ربط و مناسبت کو واجب کرنے والی چیز واضح ہو جائے۔اگر اسے آیات کے درمیان اختلاف نظر آئے اور وہ اس سلسلہ میں متکلمین کے اقوال کی طرف رجوع کرے اور وہاں اسے محض تکلف اور تصنع نظر آئے تو اس کے دل میں قرآن کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو جائے گی،حالانکہ اس نظریہ کو تسلیم کرنے سے پہلے وہ اس طرح کے شکوک سے پاک تھا۔یہ صورت حال اس وقت درست ہو گی جب یہ فرض کر لیا جائے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی قرآن نازل ہوا ہے۔آخر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے،جبکہ ہر وہ شخص جسے کتاب الٰہی کا ادنیٰ سا علم ہے اور وہ اس سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے،وہ جانتا ہے کہ صورت حال ایسی نہیں ہے۔اگر کسی کو اس میں شک ہو،اگرچہ اہل علم اس میں شک نہیں کر سکتے،تو وہ اسباب نزول کے ان علماء کے کلام کا مطالعہ کرے جو واقعات و حالات نبوت سے پوری طرح واقف تھے۔اس مطالعہ سے اس کا سینہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور طویل سورتوں کو چھوڑ یئے،معتدل اور درمیانی سورتوں ہی کو لیجئے اور غور کیجئے۔آپ کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔ان سورتوں کے مطالعہ سے وہ اس نتیجہ تک پہنچے گا کہ وہ ایسی آیا ت پر مشتمل ہیں جو مختلف حالات اور جدا جدا اوقات میں نازل ہوئی ہیں۔جن کے اسباب و حالات میں کوئی مطابقت نہیں پائی جاتی،بلکہ یہاں صرف اسی پر غور کر لیا جائے کہ سب سے ابتداء میں﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾نازل ہوئی پھر﴿يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾اور اس کے بعد﴿يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ﴾کی آیات اتریں۔بتائیے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب میں ان آیات اور سورتوں کی جگہ کیا ہے،جب صورت حال یہ ہے تو ان آیات کے درمیان مناسبت تلاش کرنے کے کیا معنی ہیں جن کے بارے میں قطعی طور پر ہمیں معلوم ہے کہ مصحف کی ترتیب کے بعد میں انہیں رکھا گیا ہے جبکہ ان کا زمانہ نزول پہلے کا ہے۔یا مصحف میں انہیں پہلے رکھا گیا ہے جبکہ زمانہ نزول بعد کا ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا تعلق نزول قرآن کی ترتیب سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے ہے جو جمع و ترتیب کے ذمہ دار تھے اس طرح کے علم کا فائدہ بہت کم اور اس کا ثمر بہت محدود ہے۔بلکہ یہ صاحب فہم کے نزدیک محض تضیع اوقات اور ایسی چیز میں گھنٹوں صرف کرنا ہے جو عبث اور بے سود ہے۔آپ خوب واقف ہیں کہ اگر ایک شخص مناسبت کی تلاش میں پڑ جائے اور اہل ادب و بلاغت کے خطبوں،رسائل اور انشائیوں میں نظم ڈھونڈنے لگے یا شعراء کے مدحیہ،ہجائیہ،غزلیہ اور مرثیہ قصائد اور خطبوں میں ان کے فقروں اور خاتموں میں مناسبت کے اسباب تلاش کرے،پھر ایک قدم آگے بڑھ کر تصنع کرتے ہوئے خطیب کے خطبہ جہاد کی خطبہ حج اور خطبہ نکاح اور دوسرے تمام خطبوں میں وحدت پیدا کرے اور تعزیتی انشائیہ اور تبریکی انشائیہ میں
Flag Counter