Maktaba Wahhabi

218 - 535
تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ[1] اس کے فوراًبعد یہ آیت ہے: ﴿يَابَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ[2] اس آیت کا ما قبل سے بظاہر کوئی تعلق نہیں نظر آتا،مگر علامہ زمخشری رحمہ اللہ ان میں نظم ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ آیت سیاق کلام سے منقطع ہو کر علی سبیل الا ستطراد “ آگئی ہے۔اس سے پہلے کے وقعہ میں حوا ء و آدم کا تذکرہ تھا اور کہا گیا تھا کہ آدم کے ستر کھل گئے اور وہ اپنے جسم کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔یہاں لباس کا ذکر کر کے اللہ عزو جل اپنے احسان کا اظہار کر رہا ہے اور اس بات سے باخبر کر رہا ہے کہ ننگا پن اور عریانیت باعث رسوائی ہے اور ستر پوشی تقویٰ کا عظیم باب ہے۔‘‘[3] سورہ نساء کی ایک آیت ہے: ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا[4] یہاں علامہ موصوف نے پہلے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’قرآن مجید نے مریضوں،مسافروں،بے وضو اور جنسی لوگوں کو ایک ہی لڑی میں کیونکر پرودیا ہے،حالانکہ بیماری اور سفر تو رفعت کے اسباب ہیں۔جبکہ حدث و جوب وضو کا سبب اور جنابت و جوب غسل کا سبب ہے۔آخر اس ترتیب و تنظیم کا کیا سبب ہے اور کیا حکمت ہے ؟پھر اس کا جواب یوں دیتے ہیں: ”جن لوگوں پر طہارت واجب ہو چکی ہے،لیکن پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے وہ اس کا استعمال نہیں کر سکتے،ایسے لوگوں کو اللہ عزو جل کی طرف سے مٹی سے تیمم کی رخصت دی جا رہی ہے۔چنانچہ ان میں سے مریضوں اور مسافروں کو پہلے رخصت دی گئی اور ان کا تذکرہ سب سے پہلے ہوا۔کیونکہ یہ لوگ اس لحاظ سے اولیت کے مستحق تھے کہ یہ اسباب بکثرت اور بتکرار پیش آتے ہیں اور ان سے انسان کو زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے بعد بطور عموم ان سب کا ذکر کر دیا گیا جن پر طہارت واجب ہو اور وہ پانی استعمال پر قادر نہ ہوں،خواہ دشمن یا درندوں کے خوف سے یا برتن نہ ہونے یا پانی نہ ملنے کی وجہ سے،کیونکہ مرض اور سفر کے مقابلہ میں یہ عوارض کم لاحق ہوتے ہیں۔‘‘ [5] نظم قرآن کے بارے میں آیات کی باہمی مناسبت پر جو گفتگو علامہ زمخشری رحمہ اللہ کے ہاں ملتی ہے،وہی آگے فخر الدين
Flag Counter