ساتھ سخاوت اور قربانی کا،تقوی کے ساتھ ایمان،احکام شریعت اور قسط کا،اور قسط کے ساتھ توحید،معاد اور احکام شریعت کا مضمون دیکھو گے۔غور کرنے سے ان مضامین کی باہمی مناسبت سمجھ میں آجاتی ہے اور کہیں کہیں تو اس مناسبت کو واضح بھی کر دیا گیا ہے۔یہ چیز نظام کی طرف رہنمائی تو کرتی ہی ہے،اس کے علاوہ یہ حکمت کے ابواب تک بھی رہنمائی کرتی ہے۔کیونکہ حکمت نظام کے ساتھ پیوست ہے۔
3۔ قرآن کا یہ بھی طریقہ ہے کہ ایک مقام پر ایسے امور کا ذکر کردیتا ہے جن کی مناسبت بالکل واضح ہوتی ہے۔پھر دوسرے مقام پر کچھ مناسبتوں کو باقی رکھ کر باقی مناسبتوں کا بیان موجود ہوتا ہے وہ دوسرے مقام پر خود بخود خلا کو بھر دیتا ہے۔اور غیر مذکور مناسبتوں کی طرف اس کی توجہ ہو جاتی ہے۔قرآن کا یہ انداز بھی ہے کہ وہ ایک پہلو دار بات کا ذکر مختلف مقامات پر اس طرح کرتا ہے کہ ہر مقام پر اس کے بعض پہلوؤں کو نمایاں کرتا جاتا ہے۔تمام پہلو یکجا بیان نہیں ہوئے۔[1]
4۔ یہ نظم کلام ہی کا تقاضا ہے کہ انسانی فطرت کے ضعف کے سبب سے جیسا کہ﴿وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا﴾[2] کہ اور ہم نے آدم علیہ السلام سے اس بات کا اس سے پہلے عہد لیا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادہ کی پختگی نہیں پائی۔میں بیان ہوا ہے،جو آیتیں بطور تخفیف کے نازل ہوئیں ان کو اصل احکام کے پہلو میں جگہ دی گئی ہے اس کی تصدیق﴿الْآنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا﴾[3]سے ہوتی ہے۔یہ آیت اپنے اصل سابق حکم سے پہلو میں رکھی گئی ہے۔سورہ مزمل کی آخری آیت اسکی ابتدائی آیات کے بعد نازل ہوئی ہے لیکن رکھی وہیں گئی جہاں اس سلسلہ کے سابق احکام موجود تھے۔یہی حال﴿أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ﴾[4]اسی طرح آیت﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا﴾[5]اس سلسلہ کے اصل احکام کے بعد بطور تتمہ نازل ہوئی اور غایت اہتمام کی وجہ سے پہلے تتمہ کے بعد رکھی گئی۔اس طرح تو ضیحی و تشریحی آیات کے بعد با لعموم یہ آیت آیا کرتی ہے﴿كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ﴾[6] کہ اسی طرح اللہ لوگوں کیلئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دیتا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ در حقیقت اس وعدہ کا ایفا ہے جو اللہ عزو جل نے آیت کریمہ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾[7] میں فرمایا ہے۔کہ پھر ہمارے اوپر اس قرآن کو
|