Maktaba Wahhabi

203 - 535
خاں(1890ھ)،مولانا محمود الحسن(1904ء)،مولانا شبیر احمدعثمانی(1949ء)،مولانا ابو الکلام آزاد(1958ء)رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں۔بعد کے مفسرین میں مولانا عبدالماجد دریابادی(1977ء)اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی(1979ء)رحمہما اللہ ہیں۔ان کی تفسیری خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا لیکن جب ہم مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ کا موازنہ ان حضرات سے کرتے ہیں تو مولانا فراہی رحمہ اللہ اپنے علمی نقطہ نظر میں بالکل تنہا نظر آتے ہیں۔اس پہلو سے مولانا کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہندوستان کی سرزمین اور یہاں کے خالص عجمی ماحول میں،جو عربی زبان و ادب کیلئے بالکل سازگار نہیں،مولانا فراہی رحمہ اللہ نظم قرآن کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں اور عربی زبان و ادب اور نقد وبلاغت ہی کو اپنا اصل ذریعہ اور اصل ہتھیارتصور کرتے ہیں۔یہ ایک علمی حقیقت ہے کہ علمی دنیا میں جہاں تک اصول وضوابط کا تعلق ہے ان کی ترتیب و تنسیق اور ترتیب و تالیف میں ایک عالم دوسرے عالم کی تصنیف سے مدد لے سکتا ہے،لیکن جہاں تک فن کا تعلق ہے اس میں انسان کا خود صاف ستھرا اور پاکیزہ ذوق و وجدان رہنمائی کرتا ہے جس کو قرآن مجید نے حکمت سے تعبیر کیا ہے۔ ﴿وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا[1] کہ اور جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر کا خزانہ ملا۔ مولانا لکھتے ہیں: ’’عام باتیں جب کسی برتر عمومی حوالے سے دیکھی جائیں تو وہ مربوط ہو کر اعلیٰ حقیقتوں تک پہنچاتی ہیں۔یہ نظم کلام ہی ہوتا ہے جو ان اعلیٰ حقیقتوں اور حکمتوں تک رہنمائی کرتا ہے۔یہی اعلیٰ حقیقتیں اصل غایت ہوتی ہیں۔جو شخص نظم کو نہیں سمجھتا وہ ان حقائق،حکمتوں اور غایتوں سے بے خبر رہتا ہے۔چنانچہ ایسے شخص کا حصہ اعتقاد و عمل میں کم رہ جاتا ہے۔صحیح عقائد کی آدمی کو خبر نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ پروردگار کے بارے میں سوءظن میں مبتلا ہو جائے اور اس کے ساتھ اس کی صحیح نسبت قائم نہ رہے۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور یہ عقائد ہی سے پھوٹتے ہیں۔اس لئے ان حکمتوں اور غایتوں سے کم علم آدمی کیلئے ان کی قرار واقعی بجاآوری کا دروازہ بند کرسکتی ہے۔مثلاََ نماز میں ذکر کا فقدان یا زکوٰة میں تقویٰ کا فقدان ہو جائے۔بعض اوقات یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ آدمی بالکلیہ ہی بعض اعمال کو ترک كردے جیسے بہت سے لوگوں سے اعمالِ حج کے معاملہ میں ہوتا ہے۔اللہ عزو جل جس طرح قدر دان اور علیم ہے اسی طرح بخشنے والا اور حلم والا بھی ہے۔مگر جاننے والے اور نہ جاننے والے کیا برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘ اکثر حکمتیں اور برتر حقائق نظم کی روشنی میں سمجھ میں آتے ہیں۔لہٰذا جو شخص نظم میں غور و فکر چھوڑتا ہے وہ قرآن کے مفہوم کے اس برتر حصے کو چھوڑتا ہے۔قرآن حکمت اور نور ہے۔فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم((أَلَا إِنِّي أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ بَلْ أَکْثَرُ))کہ آگاہ رہو کہ مجھے قرآن دیا گیا اور اسکے ساتھ اسکی مانند بلکہ اس سے زیادہ بھی۔میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔یہ زائد چیز قرآن کا فہم ہے۔یہ ایک بحرنا پیداکنارا ہے۔نظم کا فہم بھی اسی سے متعلق ہے کیونکہ یہ مفہوم میں بڑا اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘[2]
Flag Counter