’’ہر چند کہ قرآن کے ایک منظّم کلام ہونے کی حقیقت ایک عرصہ سے میرے سامنے بالکل واضح تھی لیکن میری دلی خواہش یہی رہی کہ میں اس کے اظہار کی مسئو لیت اور اس کے خیروشر کی ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو بچالے جاؤں۔لیکن مندرجہ ذیل اسباب نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس ذمہ داری کے اٹھانے سے گریز نہ کروں۔‘‘[1]
وہ اسباب جن کی بنا پر مولانا فراہی رحمہ اللہ اس فکر کو پیش کرنے پر مجبور ہوئے،مولانا کی زبانی حسبِ ذیل ہیں:
1۔ سب سے پہلی چیز جس نے مجھے اس ذمہ داری کے اٹھانے کیلئے مجبور کیا ہے،یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ تاویل کا بیشتر اختلاف نتیجہ ہے اس بات کا کہ لوگوں نے آیات کے اندر نظم کا لحاظ نہیں رکھا ہے۔اگر نظم کلام ظاہر ہوتا اور سورۃ کا عمود یعنی مرکزی مضمون واضح طور پر سب کےسامنے ہوتا تو تاويل میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہوتا۔بلکہ سب ایک ہی جھنڈے کے نیچے جمع ہوتے اور سب کےمنہ سے ایک ہی صدا بلند ہوتی:﴿كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ﴾کہ ایک بار آور درخت کی مانند جس کی جڑ زمین کے اندر دھنسی ہوئی اور جس کی شاخیں فضاء میں پھیلی ہوئی ہوں۔
2۔ دوسری چیز جو اس کیلئے محرّک ہوئی وہ ’ملحدین‘ کا اعتراض تھا۔انہوں نے قرآنِ مجید پر بے نظمی کا الزام لگایا۔میں نے دیکھا کہ علمائے اسلام ان کے جواب میں بجائے اس کے کہ حق کا اظہار کرتے اور کتابِ الٰہی سے اس الزام کو دفع کرتے،اسی قسم کی باتیں خود کرنے لگے جس قسم کی باتیں یہ ’ملحدین‘ کہہ رہے تھے،ایسی حالت میں میرے لئے ممکن نہ رہا کہ میں حق کو سرنگوں اور باطل کو سربلند دیکھتا رہوں اور چپ چاپ بیٹھا رہوں بالخصوص جبکہ ملحدین کا اعتراض بالکل غلط ہے۔
3۔ علاوہ ازیں یہ اَمر ہر شخص کو معلوم ہے کہ نظمِ کلام،کلام کا جز ء ہوا کرتا ہے۔اگر اس کو چھوڑ دیجئے تو خود کلام کے معنیٰ و مفہوم کا ایک حصہ غائب ہو جائے گا۔ترکیب ایک زائد حقیقت ہوتی ہے جو ایک چیز کے متفرق اجزاء میں الگ الگ نہیں ہوا کرتی۔انگور اور اس سے ترکیب پانے والی شراب ایک ہی چیز نہیں ہے۔اس سبب سے اگر کوئی شخص اس سب سے اور فہم نظم سے محروم رہ جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ خود کلام کی ایک بڑی حقیقت اس کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئی اور عجب نہیں کہ وہ اہل کتاب کی اس صف سے جاملے جس کا حال قرآن نے یوں بیان کیا ہے کہ﴿فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾کہ پس انہوں نے ایک بڑا حصہ اس کتاب کا فراموش کر دیا جس کے ذریعہ سے ان کو یاد دہانی کی گئی تھی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کیلئے دشمنی اور جھگڑے کی آگ بھڑ کا دی۔مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ ممکن ہے یہ عداوت اور بغض،جس کی وبا آج مسلمانوں میں پھوٹ رہی ہے،اسی کا نتیجہ ہو کہ ہم نے ’نظمِ قرآن‘ کو نظر انداز کرکے خود قرآن کے ایک حصہ کو بھلا دیا ہے۔اگر ایسا ہے تو اس فتنہ کا دبنا مشکل ہے۔اس کی وجہ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے،یہ ہے کہ جب کلامِ الٰہی کے معانی کے بارے میں ہماری آراء مختلف ہو جائیں گی تو لازماََ ہماری خواہشیں اور ہمارے ارادے بھی مختلف ہو جائیں گے اور ہمارا حال وہی ہو جائے گا جو اہلِ کتاب کا ہوا۔صرف یہ فرق ہوگا کہ ان کیلئے آخری بعثت اورآخری صحیفہ کے ذریعہ سے اصلاحِ حال کا موقع باقی تھا اور ہمارے لئے آخری چارۂ کا ر صرف یہی قرآنِ کریم ہے۔
|