تابعین کی ایک بڑی جماعت تفسیر بالرّائے کی قائل تھی۔ان کے تفسیر میں اپنے اپنے اختیارات تھے۔جو بسا اوقات صحابہ کے مخالف بھی ہوتے تھے۔ان کے مصادر بھی وہی تھے جو صحابہ کرام کے تھے۔لیکن انہوں نے اپنے مصادر میں ایک مصدر ’تفسیر صحابہ‘ کا اضافہ کرلیاتھا کیونکہ یہ صحابہ کے بعد آئے تھے۔
پھر تبع تابعین آئے۔ان کا بھی تابعین والا حال تھا ان پر تفسیر میں نقل موقوف ہوگئی۔جیسا کہ کتب تفاسیر سے ظاہر ہوتا ہے جن کتب میں سلف کے اقوال نقل کئے گئے ہیں۔اور ہر طبقہ کی تفسیر اپنے بعد والوں کیلئے ماثور تھی۔لیکن اسے مطلق قبولیت حاصل نہ تھی کیونکہ وہ فقط ماثور تھی۔جس میں متعدد اختلافات تھے،جن میں سے اولیٰ قول کو ترجیح دینے کی ضرورت تھی۔اس کے ماثور ہونے کے باوجود اس میں متعدد اختلافات تھے۔
مذکورہ وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف سے منقول تفسیر کی دو اقسام ہیں:
1۔ منقولِ محض:اس سے مراد وہ تفسیر ہے جس میں اجتہاد کا وقوع ممکن نہ ہو،یہ تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیرات،اسباب نزول اور غیبیات و اعجازی قصص پر مشتمل ہے۔
2۔ اجتہادی:اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو سلف کا اجتہاد ہو اور ظاہر ہے اس میں احتمال واقع ہوتا ہے۔
اب اگر اس اجتہادی تفسیر میں فقط انفرادی معنیٰ بیان کیا گیا ہو مثلا کسی لفظ کا معنی بیان کردیں تو وہ بھی حجت ہے۔کیونکہ صحابہ اہل زبان تھے اور لغت عرب کی فصاحت و بلاغت سے سب سے زیادہ واقف تھے۔لیکن اگر کسی لفظ کی گہرائی میں جاکر کوئی مفہوم نکالیں جیسے سیدنا علی نے﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾[1] اور﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾[2] دونوں آیات کو جمع کرکے یہ نکتہ نکالا کہ چھ ماہ کے حمل کے بعد بھی بچہ پیدا ہوسکتا ہے تو ایسی تفاسیر ان کا اجتہاد کہلائیں گی۔لیکن اس کے باوجود دیگر کی نسبت صحابہ کرام کی ایسی تفاسیر کی ایک اہمیت ہے۔
جو رائے ان کی طرف سے وارد ہو وہ رائے محمود کے قبیل سے ہوگی کیونکہ وہ قرآن میں بغیر علم کے کوئی رائے نہ دیتے تھے او رنہ ہی ان کے ہاں کوئی مذہبی تعصّب تھا کہ آیات قرآنی کو اپنے عقیدہ کے مطابق ڈھال دیں۔جب وہ مذکورہ دونوں اسبابِ تحریف سے محفوظ تھے تو معلوم ہوا کہ وہ کلام اللہ کی تفسیر علم کی بناء پر کرتے تھے اور تفسیر میں ان کی رائے محمود ہے اور ان اسلاف سے اپنی تفاسیر میں کسی ضعیف قول کے آجانے سےوہ مذموم نہیں بن جاتی جیسے مجاہد رحمہ اللہ نے بنی اسرائیل کے بندر اور خنزیر بن جانے،میزان اور نظر الی وجہ اللہ کی منفرد تفسیر کی ہے۔تو ایسا بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے۔جن کو ذکر کرنا مناسب نہیں ہوتا۔
لیکن وہ رائے جو تفسیر اسلاف کے بعد وارد ہوئی ہو اس کی دو اقسام ہیں:
1۔ رائے محمود:اس سے مراد وہ رائے ہے جو علم پر مبنی ہو،اس کی آگے دو انواع ہیں:نمبر(۱):سلف کے اقوال میں سے کسی قول کو قرینہ کی بناء پر ترجیح دے دینا۔بشرطیکہ ترجیح دینے والا شخص اہل علم میں سے ہو اور اپنی خواہش یا ذاتی میلان کی بناء پر ترجیح نہ دے اور وہ ان کے درمیان واقع اختلاف کوبھی جاننے والا ہو۔نمبر(۲):کوئی جدید صحیح معنی بیان کرنا۔جو نہ تو سلف کی تفاسیر کو
|