"أعتقه اللّٰه عزّ وجل عن الجابرة أن يدّعي أحد منهم" [1]
کہ اللہ عزو جل نے اس کو جابروں سے آزاد کردیا ہے کہ کوئی وہاں پر اپنی کسی چیز کا دعوی کرے۔
4۔ ارشاد باری تعالیٰ﴿ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ﴾[2] میں حرمات کی تفسیر میں امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے مراد مکّہ،حج،عمرہ اور وہ تمام اُمور مراد ہیں جن کی خلاف ورزی کرنے سے اللہ عزو جل نے منع کیاہے۔[3]
5۔ ارشاد باری تعالی ہے:﴿وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ﴾[4] اور جو شخص اس(پیالے)کو لے آئے اس کیلئے ایک بار شتر(انعام)ہوگا۔امام مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حمل حمار طعاما وهي لغة" [5]
كہ اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکے اس قدر اناج دیا جائے گا اور یہ معنی لغت کے اعتبار سے ہے۔
الدّر المنثور 4 ؍ 27 میں امام مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ معنی ایک لغت کے اعتبار سے ہے۔
6۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ﴾[6] میں لفظ بكّة کی وجہ سے تسمیہ بیان کرتے ہوئے امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''إنما سمیت بكّة لأنّ الناس یتباکون فيها الرّجال والنّساء.''
کہ مکہ کو بکہ مردوں اور عورتوں کے رش کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے:
"بكة بكّ فيها الرّجال والنساء"[7]
کہ بکہ اس لئے کہ اس میں مردوں اور عو رتوں کا رش ہوجاتا ہے۔
7۔ قوم ثمود کے بارے میں اللہ عزو جل کے فرمان﴿فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً﴾[8] میں غثاء کے بارے میں لکھتے ہیں:بوسیدہ،خشک
|