Maktaba Wahhabi

172 - 535
محمد عبد العظيم زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "فمن فسر القرآن برأيه أي باجتهاده ملتزما الوقوف عند هذه المآخذ معتمدا عليها فیما یری من معاني کتاب اللّٰه تعالى کان تفسيره سائغا جائزا خلیقا بأن یسمی التفسیر الجائز أو التفسیر المحمود،ومن حاد عن هذه الأصول وفسر القرآن غیر معتمد عليها،کان تفسيره ساقطا مرذولا خلیقا بأن یسمی التفسیر غیر الجائز أو التفسیر المذموم" [1] کہ جس نے تفسیر بالرائے ان مصادر(قرآن،حدیث،اقوال صحابہ وتابعین)کو مدنظر رکھ کر کی اور ان پر اعتماد کر کے قرآ ن کر یم کے معانی متعین کئے،اس کی تفسیر جائز ومباح ہے اور اسی کا نام تفسیر بالرائے جائز ومحمود رکھا جا سکتا ہے،جبکہ اگر کوئی ان اصولوں سے اعراض کرے،تو اس کی تفسیر ساقط ومردود ہو گی،اور اس کو تفسیر مذموم وناجائز کہا جائے گا۔ نیز لکھتے ہیں: "فالتفسیر بالرأي الجائز یجب أن یلا حظ فيه الاعتماد على ما نقل عن الرّسول صلی اللّٰه علیہ وسلم وأصحابه مما ینیر السّبیل للمفسر برأيه،وأن يكون صاحبه عارفا بقوانين اللغة خبيرا بأسالبيها وأن يكون بصيرا بقانون الشريعة حتى ينزل كلام اللّٰه على المعروف من تشريعه"[2] کہ تفسیر بالرّائے جائز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول آثار پر اعتماد کرنا ضروری ہے،وہ تفسیر بالرائے کرنے والے كيلئے راستے کو منور کر دیتے ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ وہ قواعد عربیہ اور اس کے اسالیب سے بخوبی واقف ہو،اور قانون شریعت کی بصیرت بھی رکھتا ہو،تاکہ وہ کلام اللہ کی تشریح معروف شرعی احکامات کے مطابق ہی کرے۔ اگر تفسیر بالرائے تفسیر بالماثور کے مصادرمیں سے کسی کے خلاف ہو،تو بھی نا قابل قبول ہو گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وفي الجملة من عدل عن مذاهب الصّحابة والتّابعین وتفسیرهم إلى ما یخالف ذلك کان مخطئا في ذلك بل مبتدعا،وإن كان مجتهدا مغفورا له خطؤه." [3] کہ الحاصل جو صحابہ وتابعین کے مذاہب سے دور ہوا اوران کے خلاف تفسیر کرے،وہ خطا کار بلکہ بدعتی ہے،اگرچہ مجتہد ہونے کی بناء پر اس کی خطا معاف ہی کیوں نہ ہو۔ مزيد لکھتے ہیں: "ونحن نعلم أن القرآن قرأه الصحابة والتابعون وتابعوهم وأنهم کانوا أعلم بتفسیره ومعانيه کما أنهم أعلم بالحق الذي بعث اللّٰه به رسوله صلی اللّٰه علیہ وسلم،فمن خالف قولهم وفسر القرآن بخلاف تفسیرهم فقد
Flag Counter