2۔ وہ رائے جو قواعدِ عربیہ کے خلاف ہو اور شرعی دلائل سے میل نہ کھاتی ہو اوراس میں تفسیر کی ضروری شرائط کافقدان ہو،اس قسم کی رائے ممنوع ومذموم ہے،سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
"ستجدون أقواما يدعونكم إلى كتاب اللّٰه وقد نبذوه وراء ظهورهم فعليكم بالعلم وإياكم والتبدّع وإياكم والتقطّع." [1]
کہ تم کتاب اللہ کی طرف دعوت دینے والے لوگوں کو دیکھو گے،جو بذاتِ خود کلامِ الٰہی کو پس پشت ڈال چکے ہوں گے،ایسے حالات میں تم علم ودلیل کے ساتھ چمٹے رہنا اوربدعات وتکلّف سے احتراز کرنا۔
سيدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
"إنما أخاف عليكم رجلين:رجلًا يتأوّل القرآن على غير تأويله ورجلًا ينافس الملِكَ على أخيه. "[2]
کہ مجھے دو آدمیوں سےڈر لگتا ہے،ایک وہ شخص جو قرآن عزیز کی غلط تاویل کرتا ہے،اور دوسرا وہ جو بادشاہ کو اپنے بھائی کے خلاف بھڑکاتا ہو۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تفسیر بالرّائے کے بارے میں سلف کے اجتناب پر مبنی آثار ذکر کرنے کےبعد فرماتےہیں:
فهذه الآثار الصحیحة وما شاكلها عن أئمة السّلف محمولة على تحرّجهم عن الکلام في التّفسیر بما لا علم لهم به،فأمّا من تکلم بما یعلم من ذلك لغة وشرعا فلا حرج عليه،ولهذا روي عن هؤلاء وغیرهم أقوال في التّفسیر ولا منافاة؛ لأنّهم تکلّموا فیما علموه وسکتوا عما جهلوه،وهذا هو الواجب على کلّ أحد،فإنه كما یجب السکوت عمّا لا علم له به فكذلك یجب القول فیما سئل عنه مما یعلمه،لقوله تعالى:﴿لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ﴾ولما جاء في الحدیث المروي من طرق:((مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَهُ،أُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِلِجَامِ مِن نَّارِ))[3]
کہ آئمہ سلف سے اس ضمن میں جو اقوال بھی منقول ہیں وہ اسی قسم کی تفسیر سے متعلق ہیں،جو بلا علم وبرہان ہو،جہاں تک لغت وشرع پر مبنی تفسیر کا تعلق ہے،اس میں کچھ مضائقہ نہیں،یہی وجہ ہے کہ علماء سے بکثرت تفسیری اقوال منقول ہیں اوران کے یہ اقوال علم وتحقیق پر مبنی ہیں،جو بات انہیں معلوم نہ ہوتی اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں،یہی بات اہل علم پر واجب ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو،اس کے بارے میں سکوت سے کام لیا جائے اورجو معلوم ہو اس کا برملا اظہار کردیا جائے اور اسے چھپایا نہ جائے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ﴾کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو اور چھپاؤ نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپایا،تو روز قیامت اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔
|