2۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾[1]
کہ ہم نے آپ پر قرآن اتارا اکہ لوگوں کیلئے آپ اس کی وضاحت فرما دیں۔
اس آیت کریمہ میں توضیح قرآن کو آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ کسی دوسرے کو قرآن کریم کے مطالب ومعانی بیان کرنے کا حق حاصل نہیں۔
3۔ مانعین مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں،جوقرآن میں رائے زنی کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ،فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ،وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ))[2]
کہ مجھ سے وہی حدیث روایت کروجس کا تمہیں یقین ہو،جس شخص نے مجھ پر دانستہ جھوٹ باندھا،تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنّم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کام لیا،وہ بھی اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
اسی طرح سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ))[3]
کہ جس شخص نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے کوئی درست بات کہی،تو بھی غلطی کھائی۔
4۔ صحابہ وتابعین کے منقول وہ آثار ہیں،جن سے واضح ہوتا ہے کہ علمائے سلف تفسیر قرآن کو بڑی اہمیت دیتے تھے او راس میں رائے زنی سے احتراز کر تے تھے۔چند آثار ملاحظہ ہوں:
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے قرآن کےکسی حرف کی تفسیر پوچھی گئی،تو فرمایا:
"أيّ سماء تُظلّني وأيّ أرض تُقلّني إذا قلتُ في كتابِ اللّٰه ما لا أعلم" [4]
کہ كونسا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا اور کونسی زمین میرا بوجھ اٹھائے گی اگر میں قرآن میں وہ بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ(94ھ)سے حلال وحرام کے بارے میں جب کچھ دریافت کیا جاتا،تو جواب میں فرماتے،لیکن جب قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر معلوم کی جاتی،تو یوں خاموش رہتے،گویا کچھ سنا ہی نہ تھے۔[5]
|