تفسیر بالرّائے
لغوی طور پر رائے کا اطلاق اعتقاد ویقین،کوشش اور قیاس پر کیا جاتا ہے،اسی سے اصحاب الرائے ہے یعنی قیاس پر عمل کرنے والے۔یہاں رائے سے مراد سخت کوشش یعنی اجتہاد ہے۔[1]
اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:
"فالتّفسیر بالرّأي عبارة عن تفسیر القرآن بالاجتهاد بعد معرفة المفسّر لکلام العرب ومناحيهم في القول ومعرفته للألفاظ العربية ووجوه دلالاتها،واستعانته في ذلك بالشعر الجاهلي ووقوفه على أسباب النّزول ومعرفته بالنّاسخ والمنسوخ من آیات القرآن،وغیر ذلك من الأدوات التي یحتاج إليها المفسّر"
کہ تفسیر بالرّائے سے مراد ہے کہ کلامِ عرب،عربوں کے طریق کار،عربی الفاظ کی معرفت،ان کی وجوہِ دلالت،جاہلی اشعار سے معاونت،اسباب نزول کی معرفت،اسی طرح ناسخ ومنسوخ اوردیگر ان ذرائع واسباب،جن کی ایک مفسّر کو ضرورت ہوتی ہے،کے ذریعے قرآن کر یم کی تفسیر کی جائے۔[2]
محمد علی صابونی لکھتے ہیں:
"التفسیر بالدّراية،وهذا النّوع يسمّى عند علماء التّفسیر:التفسیر بالرّأی أو تفسیر بالمعقو ل،لأن المفسّر لکتاب اللّٰه تعالى یعتمد فيه علی اجتهاده،لا علی المأثور المنقول عن الصّحابة أو التّابعین بل یکون فيه الاعتماد على اللّغة العربية وفهم أسلوبها على طریقة العرب،ومعرفة طریقة التّخاطب عندهم،وإدراك العلوم الضّرورية،التی ينبغي أن یکون ملما بها کل من أراد تفسیر القرآن،کالنحو والصرف وعلوم البلاغة وأصول الفقه،ومعرفة أسباب النزول إلى غيره ما هنالك من العلوم التي یحتاج إليه المفسّر." [3]
کہ تفسیر بالدّرایہ كو علمائے تفسیر کے ہاں تفسیر بالرّائے یا تفسیر بالمعقول ہے،اس لیے کہ اس میں مفسر صحابہ وتابعین سے ماثور کی بجائے اپنے اجتہاد پر اعتماد کرتا ہے،بلکہ اس میں اس کا اعتماد لغت اور عربوں کے طریق،ان کے اسلوب کے فہم اور ان کے طریق تخاطب کی معرفت اور ان علومِ ضروریہ کے ادراک پر ہو تا ہے جن کا تفسیر قرآن کرنے والے کو جاننا ضروری ہے جیسے نحو،صرف،علومِ بلاغت،اصولِ فقہ اور اسبابِ نزول کی معرفت وغیرہ علوم جن کا مفسر محتاج ہوتا ہے۔
|