تابعین کے بعد تو اس مشغلہ نے خاصی ترقی کر لی اور ہر قسم کی خرافات کو تفسیر کے سلسلہ میں روایت کیا جانے لگا۔حتیٰ کہ دورِ تدوین میں بعض مفسرین نے ان خرافات سے اپنی تفاسیر کو مزین کرنے کی کوشش کی۔اہل کتاب سے اس کثرت کے ساتھ نقل وروایت دراصل دین میں ایک سازش کی حیثیت رکھتی ہے۔جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی بعض تحریروں میں اس کی تصریح کی ہے۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إنّ النقل عن بني إسرائیل دسيسة دخلت في دیننا .. "[1]
کہ بنی اسرائیل سے روایت کرنا ایک پوشیدہ مکر ہے جو ہمارے دین میں داخل ہو گیاہے۔
لہٰذا قرآن کے ایک طالب علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس قسم کی روایات کے ذکر میں نہایت مستعدی اور بیدار مغزی کا ثبوت دے اور غوروفکر سے ایسے نتائج اخذ کرے جو قرآن کی روح سے ہم آہنگ ہوں اور نقل و روایت میں صرف انہی حصوں پر اکتفا کرے جو قرآن کے مجمل مقامات کو سمجھنے میں ممداور معاون ہوں اور پھر سنت سے ثابت بھی ہوں[2]اور اس سلسلہ میں تفسیر ابن کثیر کا توجہ سے مطالعہ بہت مفید ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی تفسیر میں متعدّد مقامات پر اسرائیلیات پر تنقید کی ہے۔البتہ اختلاف کی صورت میں ایک مولّف ان سب کو نقل کر کے ان میں سے صحیح بات کی نشاندہی کر سکتا ہے۔پھر بہتر یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اسرائیلیات کو کلیتاً ترک کر کے قرآن پر تدبّر میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کیا جائے جیسا کہ قرآن نے بعض مقامات پر اس اصول کی طرف رہنمائی کی ہے[3]خصوصاً قصص کے باب میں اِجمال و تفصیل کے موقع پر خود قرآن سے تفصیلات کو اَخذ کرنے کو ایک رہنما اُصول قرار دیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ صحابہ کرام نے اسرائیلی روایات سے بے شک استفادہ کیا ہے اور ضرورت کی حد تک ان سے روایت کو جائز سمجھا ہے تاہم اس میں حزم و احتیاط کو ملحوظ رکھا ہے اور اسرائیلیات کا بیان محض ایک تفتیش علمی کی حیثیت رکھتا ہے جسے وضاحت کے سلسلہ میں قبول تو کر سکتے ہیں مگر ان کو میزانِ صحت قرار نہیں دے سکتے۔
|