Maktaba Wahhabi

130 - 535
ايك اور حديث مبارکہ میں ہے: ((أَلَا إِنّي أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَه مَعَه،ألَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِه يَقُولُ:عَلَيْكُمْ بِهٰذَا القُرآنِ فَمَا وَجَدتُّمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدتُّمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرّمُوهُ،أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِي وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقْطَةُ مُعَاهِدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَّمْ يَقْرُوهُ فَلَه أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ))[1] کہ اگاہ رہو،مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کی مثل ایک اور چیز۔عنقریب ایک سیر شکم آدمی مسند سے ٹیک لگائے یوں کہے گا کہ قرآن کا دامن تھامے رہو،جو چیز اس میں حلال ہو اس کو حلال سمجھو اور جو حرام ہو اسے حرام سمجھو۔لیکن خبردار رہو کہ تم پر گھریلو گدھا حلال نہیں،نہ درندوں میں سے نوکیلے دانتوں والا اور نہ ہی معاہد شخص کی گمشدہ چیز،الا یہ کہ اس کا مالک اس سے مستغنی ہوجائے۔جو شخص کسی قوم کا مہمان بنے،تو ان پر لازم ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں،اگر نہ کریں تو وہ اپنی مہمان نوازی کے بقدر ان کا مال لے سکتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان((أَلَا إِنّي أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَه مَعَهُ))کے معنی یہ ہیں کہ مجھے کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ اس کی توضیح و تفسیر بھی بارگاہِ الٰہی سے عطا کی گئی ہے۔اسی کے پیشِ نظر آپ قرآنی آیات کی تخصیص فرماتے،ان کی تشریح و توضیح فرماتے،بعض احکام کو منسوخ فرماتے اور اس کے بعض احکام پر اضافہ فرماتے تھے۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر قرآن اسی طرح واجب العمل اور لازم القبول ہوئی جس طرح قرآن کریم واجب العمل اور لازم القبول ہے۔اور ظاہر ہے کہ یہ وجوب ولزوم سنت کے وحی ہونے کے باعث ہی ہے۔اس حدیث میں اس معنیٰ کا بھی احتمال ہے کہ وحی متلوّ کے علاوہ مجھے وحی غیر متلوّ بھی عطا کی گئی ہے۔اس کی تائید آیتِ کریمہ:﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى()إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى[2] سے بھی ہوتی ہے۔ اس حدیث کی تشریح میں امام خطابی رحمہ اللہ(338ھ)فرماتے ہیں: "قوله((أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَه مَعَهُ))يحتمل وجهين من التأويل،أحدهما:أن معناه أنه أوتي من الوحي غير المتلوّ مثل ما أعطي من الظاهر المتلوّ،والثاني:أنه أوتي الكتاب وحيا يتلى وأوتي من البيان مثله أي أذن له أن يبين ما في الكتاب فيعمّ ويخصّ ويزيد عليه ويشرع ما في الكتاب فيكون في وجوب العمل به ولزوم قبوله كالظاهر المتلوّ من القرآن وقوله:((رَجُلٌ شَبْعَانُ ...))يحذّر بذلك مخالفة السّنن التي سنّها رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم مما ليس له في القرآن ذكر على ما ذهب إليه الخوارج والرّوافض فإنهم تعلّقوا بظاهر القرآن وتركوا السّنن التي قد ضُمّنت بيان الكتاب فتحيّروا وضلّوا"[3] کہ حدیث کے مثل قرآن ہونے کی تشریح دو طرح کی جاسکتی ہے۔اولاً جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی متلو عطا ہوئی اسی طرح
Flag Counter