نقل کیا ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
"وأیضا فإنّ القراءتین کالآیتین،في إحداهما الغَسل وفي الأخرى المسح لاحتمالهما للمعنیین فلو وردت آیتان إحداهما تُوجِبُ الغَسل والأخرى المسحَ لمَا جازَ ترك الغَسل إلى المَسحِ" [1]
کہ دو قراءتیں دو آیتوں کی طرح ہیں،ان میں سے ایک میں دھونے کا معنی ہے دوسر ی میں مسح کا،کیو نکہ یہ دونوں معانی کا احتمال رکھتی ہیں۔چنانچہ اگر بالفرض دو آیتیں نا زل ہو جا تیں،ایک کا مو جب دھونا ہو تا اور دوسری کا مسح ہو تا،تو بھی دھونے کو مسح کے مقا بلہ میں تر ک کرنا جا ئز نہ ہو تا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وأما القراءة الأخرى وهي قراءة من قرأ﴿وَأَرْجُلِکُمْ﴾بالخفض فهي لا تخالف السنّة المتواترة ؛ إذ القراءتان کالآیتین"[2]
کہ دوسری قراء ت﴿وَأَرْجُلِکُمْ﴾جو زیر کے ساتھ ہے،وہ سنتِ متواترہ کےمخالف نہیں ہے،اس لیے کہ دو قراءتیں دو آیتوں کی طرح ہوتی ہیں۔
ابو الفضل محمود آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ومن القواعد الأصوليّة عند الطّائفتین أنّ القراءتین المتواترتین إذا تعارضتا في آية واحدة فلها حکم آیتین"[3]
کہ دونوں گروہوں کے نزدیک اُصولی قواعد میں سے ایک یہ ہے کہ متواتر قراءتیں جب ایک آیت میں متعارض ہو جا ئیں تو ان کا حکم دو آیتوں کی طرح ہے۔
علمائے کرام نے قراء اتِ متواترہ کے علاوہ قراء اتِ شاذہ کو بھی حجت تسلیم کیا ہے اور ان سے نئے نئے مسائل کا استنباط کیا ہے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کوسنا کہ وہ﴿فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللّٰهِ﴾[4]کے بجائے فَامْضُوا إلى ذکر اللّٰه پڑھا کرتے تھے۔[5]
اس ضمن میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علماء نے قراءاتِ شاذہ کو بطورِ تفسیر حجّت قرار دیا ہے۔یہ حدیث اس کا واضح ثبوت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما بھی سيدنا عمررضی اللہ عنہ
|