کی تین قسمیں ہیں:
1۔ لفظ میں تبدیلی ہو جائے،لیکن معنی دونوں قراء توں میں ایک ہی رہے جیسے(الصّراط،السّراط)،(عَلَيْهِمْ،عَلَیْهُمْ)،(الْقُدْس،الْقُدُس)اور(یَحْسِب،یَحْسَب)
2۔ لفظ اور معنی میں تبدیلی تو ہو جائے،لیکن دونوں کا مصداق ایک ہو یعنی دونوں ایک ہی ذات پر صادق آتے ہوں جیسے سورۂ فاتحہ میں مٰلِكِ اور مَلِكِ دونوں اللہ عزو جل کی صفتیں ہی ہیں،اس لیے کہ وہ قیامت کے دن کے مالک بھی ہیں اور اس روز کے بادشاہ بھی،کیونکہ اس دن سب مجازی سلطنتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔
3۔ لفظ ومعنی دونوں میں تبدیلی آ جائے اور دونوں کامصداق بھی جدا جدا ہو،لیکن کوئی ایسی توجیہ کرنا ممکن ہو جو دونوں کو متّحد کردے اور تضاد پیدا نہ ہونے پائے۔مثلاً﴿وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا﴾[1] میں ذال کی تخفیف والی قراء ت میں ظن وہم کے معنیٰ میں ہے اور جمع کی تینوں ضمیریں کفار کیلئے ہیں اور معنی یہ ہیں کہ کفار کو یہ وہم ہو گیا کہ رسولوں نے جو خبریں دی ہیں ان میں ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ذال کی تشدید والی قراءت کی صورت میں ظن یقین کے معنی میں ہے اور تینوں ضمیریں رسولوں کیلئے ہیں۔یعنی رسولوں کو اس بات کایقین ہو گیا کہ اب ان کی قوم نے انہیں پوری طرح جھٹلا دیا ہے۔ضد اور مخالفت کے سبب اب ان کے ایمان لانے کی کوئی اُمیدنہیں رہی۔
اسی طرح﴿وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾[2] میں پہلی قراء ت﴿لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾میں إن نافیہ ہے جو لام نفی کی تاکید کیلئے ہے،جبکہ مضارع أَن مقدّرہ کی بناپر منصوب ہے اور الجبال سے مراد مجازی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت،دین اسلام اور قرآنِ مجید ہیں یعنی کفار کی تدبیریں توفی نفسہا بڑی بڑی اورمضبوط تھیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی تدبیر ایسی نہ تھیں جن سے پہاڑ(نبوت،قرآن،دین حق)اپنی جگہ سے ہٹ جاتے اور دین الٰہی مٹ جاتا بلکہ ان کی مخالفت کے باوجود بھی دینِ حق غالب ہی رہا اور ان کی تدبیریں نیست و نابود ہو گئیں۔دوسری قراء ت﴿لَتَزُولُ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾میں إِنْ مخففہ من المثقلہ ہے اور لَتَزُولُ كا پہلا لام ابتدائیہ ہے جبکہ دوسرا لام مرفوع ہے اور الجبال حقیقی معنی میں ہے پس اس سے یہی ظاہری پہاڑمراد ہیں یعنی یہ بات یقینی ہے کہ کفار کی تدبیریں اس قدر مضبوط اور سنگین تھیں کہ ان سے پہاڑبھی اپنی جگہ سے مٹ جاتے،لیکن اس کے باوجود وہ دین الٰہی کومغلوب نہ کر سکے جو دین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر واضح ترین دلیل ہے۔[3]
ان مثالوں پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ضدیّت اور منافات کسی بھی قراء ت میں نہیں۔اگر ہمیں کسی قراء ت کی ضدیّت
|