ابواب میں منقسم تھی اور ان میں ایک باب تفسیر پر بھی مشتمل تھا۔اس دَور میں ایسی کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی تھی جس میں ہر ہر سورت اور آیت کی الگ الگ تفسیر کی گئی ہو۔ایسے علماء موجود تھے جو مختلف شہروں میں گھوم پھر کر احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ تفسیری اقوال بھی جمع کرتے جو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین کی طرف منسوب تھے۔
ان حضرات میں درج ذیل اکابر قابل ذکر ہیں:
سیدنا یزید بن ہارون سلمی 117ھ،شعبہ بن حجاج 118ھ،وکیع بن جراح 197ھ،سفیان بن عیینہ 198ھ،روح بن عبادہ بصری 205ھ،عبد الرزّا ق بن ہمام 211ھ،آدم بن ابی ایاس 220ھ اور عبد بن حمید 249ھ وغیرہ
یہ تمام علماء محدثین میں سے تھے اور تفسیری اقوال کو الگ طور پر نہیں بلکہ احادیث کی حیثیت سے جمع کرتے تھے۔انہوں نے اپنے پیش رَو ائمہ تفسیر سے جو کچھ بھی نقل کیا تھا اسکو انکی جانب منسوب کر دیا تھا۔لیکن گردشِ زمانہ سے یہ مجموعے ہم تک نہ پہنچ سکے۔
تيسرے مرحلہ پر پہنچ کر تفسیر قرآن نے حدیثِ نبوی سے الگ ہو کر ایک جداگانہ علم کی حیثیت اختیار کر لی۔اب قرآنی ترتیب کے مطابق ہر ہر آیت کی تفسیر مرتّب کی جانے لگی۔اس میں حسب ذیل علماء نے حصہ لیا۔
سیدنا ابن ماجہ 273ھ،بقی بن مخلد قرطبی 276ھ،ابن جریر طبری 310ھ،ابو بکر بن منذر نیشاپوری 318ھ،ابن اَبی حاتم 327ھ،ابو الشیخ ابن حبان 369ھ،امام حاکم 405ھ اور ابو بکر بن مردویہ 410ھ وغیرہ
یہ تمام تفاسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ،تابعین واتباع تابعین سے بالاسناد منقول ہیں۔ان میں تفسیر بالماثور کے سوا کچھ نہیں۔البتہ اس دَور کی جس تفسیر کو شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہوا وہ امام المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی تفسیر جامع البیان ہے،جو تفسیر بالماثور کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ(310ھ)نے اس میں تفسیری اقوال ذکر کرکے ان کی توجیہ کی اور بعض کو راجح اور دوسروں کو مرجوح قرار دیا ہے،جہاں ضرورت پڑی وہاں بعض کلمات کی اعرابی حالت بھی بتائی ہے،جن آیات مبارکہ سے احکام کا استنباط ممکن تھا ان سے شرعی احکام اخذ کیے ہیں۔
اس دَور میں ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ 223ھ نے لغوی اور عقلی زاویہ نظر سے،علی بن حسن بن فضال رحمہ اللہ 224ھ نے شیعی نقطۂ نظر سے،ابو سہل بن عبد اللہ تستری رحمہ اللہ 283ھ نےمتصوفانہ اسلوب سے ابو علی جبائی رحمہ اللہ303ھنے معتزلی نقطۂ نظر سے،ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ 324ھ نےاشعری،ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ 333ھ نے ماتریدی زاویۂ نگاہ سے تفسیریں لکھیں۔
پانچویں صدی ہجری میں علامہ ابن فورک رحمہ اللہ 406ھ نے کلامی انداز میں معانی القرآن،ابو عبد الرحمٰن سلمی رحمہ اللہ 412ھ نے صوفیانہ اسلوب سے حقائق التفسیر،ابو اسحاق احمد بن محمد ثعلبی رحمہ اللہ 427ھ نےلغوی وفقہی طریقے سے الکشف والبیان فی تفسیر القرآن اور ابو جعفر طوسی 460ھ نے شیعی نقطۂ نظر کے موافق البیان فی تفسیر القرآن کے نام سے کتبِ تفسیر لکھیں۔ان میں مؤخّر الذکر کتاب خاصی ضخیم ہے اور بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔
اس مرحلے میں تفسیر کے حدیث نبوی سے جدا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے قبل تفسیر کے سلسلہ میں قبل ازیں جو مساعی انجام دی گئی تھیں،وہ سب رائیگاں ہو گئیں۔بلکہ تفسیر کا تدریجی سلسلہ جاری رہا،ابتدائی مرحلہ میں تفسیری اقوال بطریق اخذ وروایت نقل کیے جاتے تھے،دوسرے مرحلہ میں تفسیر کی تدوین ابوابِ حدیث کے ایک باب کے اعتبار سے کی جانے لگی۔جبکہ تیسرے مرحلے
|