عمروبن حزم کا تعلیمی اُمور پر تقرر اسلامی سلطنت کا ایک اہم ضلع ’نجران‘ تھا جس پر قیس بن الحسین کو گورنر مقرر کیا گیا تھا لیکن تعلیمی ، فقہی اور عدالتی امور کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو مقرر کیا۔ ان کی تعلیمی ذمہ داریوں کے متعلق آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو نجران بھیجا تاکہ انہیں قرآن و سنت کی روشنی میں دین اسلام کی تعلیم دیں اور ان سے زکوٰۃ وصول کریں۔ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو ایک مکتوب بھی دیا جس میں تعلیمی اور دیگر ذمہ داریاں رقم کی گئیں تھیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ذریعے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط نقل کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو روانگی کے وقت لکھ کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اہل یمن کو دین سمجھائیں، سنت کی تعلیم دیں اور ان کی زکوٰۃ وصول کریں۔[2] ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ عمرو بن حزم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ تعلیمی امور میں بھی ان کا تقرر کیا گیا تھا۔ [3]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا تقرر فرمایا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کا بطور معلّم تقرر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح جلیل القدر صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معلّمانہ اوصاف اور صلاحیت و لیاقت کی بنیاد پر انہیں بطور معلّم بھیجا۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ یمن سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے ہمارے ساتھ ایک ایسا شخص بھیجئے جو ہم کو اسلام اور سنت کی تعلیم دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: "لكل أمة أمين ،وأمین هذه الأمة" [4]’’یہ اس امت کا امین ہے۔‘‘ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا تقرر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اندر تعلیمی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ چار افراد سےبطور خاص علم قرآن سیکھنے کی تلقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار افرادحضرت عبداللہ بن مسعود ، سالم مولیٰ، ابی حذیفہ ، ابی بن کعب اور معاذ بن |