بْنِ جَبَل رضی اللّٰه عنهم" [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار اشخاص سے قرآن پڑھو، عبداللہ بن مسعود، ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجتے وقت ان کے مقام و مرتبہ کو پسند فرماتے ہوئے ان کے سینے پر ہاتھ مارا جس سے حضرت معاذ بن جبل کا رسوخ فی العلم واضح ہوتا ہے۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اور آپ کا شمار کاتبینِ وحی میں ہوتا تھا اور عہد صدیقی و فاروقی میں درس ارشاد فرماتے تھے۔آپ نے عہد صدیقی و فاروقی میں بھی معلّم کے فرائض سرانجام دئیے۔ جنگ بدر کے قیدیوں کا بطور معلّمین تقرر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیمی ترقی کے لیے کوئی موقع ضائع نہیں کیا اور اس کے لیے غیر مسلموں کو بھی استعمال کیا۔ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے جو پڑھے لکھے افراد تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ذمہ لگایا کہ وہ دس دس افراد کو لکھنا سکھا دیں اور آزادی حاصل کر لیں۔ [2] حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کا بطور معلم تقرر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 10ہجری میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن کے علاقے ’عدن‘ اور ’زبید‘ میں بطور معلّم و حاکم بنا کر بھیجا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری میں قائد انہ صلاحیتیں اور معلّمانہ اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے ۔آپ بیک وقت قاری، حافظ ، عالم، فقیہ اور قاضی تھے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلّم ابوموسیٰ اشعری کا تقرر کیا۔ ابوموسیٰ اشعری قرآن مجید میں گہرا شغف اور مہارت رکھتے تھے۔ حضرت معاذ نے ابو موسیٰ اشعری سے پوچھا کہ آپ کس طرح قرآن پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ’’ کھڑے ہو کر، بیٹھ کر، سواری پر، اس کے حصے بنا کر پڑھتا ہوں اور مختلف اوقات میں پڑھتا ہوں۔‘‘ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی خوبصورت آواز کی بزبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم یوں تعریف کی گئی: عَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، أَنَّهُ قَالَ: يَا أَبَا مُوسَى لَقَدْ أُعْطِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ [3] ’’ابوموسیٰ کو آل داود کے مز امیر میں سے مزمار (حسن آواز)عطا کیا گیا ہے۔ ‘‘ عہد فاروقی میں آپ کو کوفہ اور بصرہ کا امیر بنایا گیا اور دونوں مقام میں آپ نے اپنی مجلس درس منعقد کی اور کتاب و سنت اور فقہ کی تعلیم دی۔ اور بطور معلّم اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ |