تعلیمی خدمات کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔‘‘ [1] ستر قراء اور منذربن ساعدی کا بطور معلّم تقرر صفر 4ھ میں ابوبراء عامر بن مالک کلابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ اہل نجد کی تعلیم و تبلیغ کے لیے معلّم بھیج دیں تو وہ لوگ اسلام قبول کر لیں گے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء صحابہ میں سے ستر افراد کا انتخاب کیا اور ان کا امیر منذر بن عمر و ساعدی کو بنایا۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معلّمین و قراء کو دھوکے سے شہید کر دیا گیا۔ [2] حضرت معاذ بن جبل کا بطور معلّم تقرر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں معاذ بن جبل کو دو مرتبہ بطور معلّم مقرر فرمایا تھا ایک بار مکہ مکرمہ اور دوسری مرتبہ یمن میں ۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عتاب بن السید کو مکہ کا امیر بنایا تو معاذ بن جبل کو وہاں دینی تعلیم دینے کے لیے مامور فرمایا۔بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ملک یمن کے علاقہ ’’جند‘‘ کا امیر و معلّم بنا کر روانہ فرمایا۔ ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ (متوفی2002ء)نے آپ کے لیے صدر’ناظرات تعلیم‘ اور ڈاکٹر طاہر القادری نے ’انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل کے حوالے سے امام طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وہ ایک تحصیل سے دوسری تحصیل ، ایک ذیلی تعلیمی عہدیدار کے علاقہ کے بعد دوسرے عہدیدار کے علاقے میں جاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کا تعلیمی امور پر ان کی علمی ثقاہت کی بنا پر تقرر کیا۔ حضرت معاذ بن جبل کا علم میں پایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے۔ جس میں آپ کو حلال و حرام کا سب سے بڑا عالم قرار دیا گیا۔‘‘ [3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار صحابہ سے قرآن سیکھنے کی تلقین کی ان میں سے ایک معاذ بن جبل ہیں: عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے: " اسْتَقْرئوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ، مِنْ عَبْدِ اللّٰه بْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَیْفَةَ وَأْبَيِّ بْنِ کَعْبٍ وَمُعَاذِ |