Maktaba Wahhabi

93 - 106
ابن اسحاق کی روایت ہے: ’’جب انصار بیعت کے بعد واپس پلٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیر کو روانہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھائیں، اسلام کی تعلیم دیں اور دین کی بصیرت اور صحیح سمجھ پیدا کریں۔ ‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مصعب بن عمیر کا معلمانہ تقرر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مرد شناسی پر دلالت کرتا ہے۔ پروفیسر یسین مظہر صدیقی مصعب بن عمیر کی موزوں نیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’کبار صحابہ اور سابقین اولین میں حضرت مصعب بن عمیر عبدریرضی اللہ عنہ کا انتخاب ظاہر ہے کہ محض ان کی سبقت اسلام اور شخصی و خاندانی و جاہت کے سبب نہیں ہوا تھا۔ وہ یقینا سابق صحابی تھے اور انہوں نے اسلام کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں لیکن ان سے کہیں زیادہ سبقت اور قربانی کا شرف رکھنے والے صحابہ موجود تھے۔ ان کا انتخاب صرف اس بنا پر کیا گیا تھا کہ وہ مجموعی اعتبار سے اس منصب عظیم کے لیے موزوں ترین تھے۔‘‘ [2] حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ’مُقری‘ (استاد)کے نام سے معروف ہو گئے۔ ان کی علمی بصیرت، عقل و دانش اور معلمانہ اوصاف کی بنا پر’بنی عبدالاشہل‘ کے دونوں سردار سعد بن معاذ اور اُسید بن حضیر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اور ان کے قبولِ اسلام کا یہ اثر ہوا کہ شام تک سعد بن معاذ کا سارا قبیلہ اسلام لے آیا۔ سوائے ایک آدمی کے جس کا نام ’اصیرم‘ تھا اس کا اسلام جنگ اُحد تک موخر ہوا۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معلّم مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی تعلیم کی وجہ سے نبوت کے تیرہویں سال کے ایام حج تک انصار کا کوئی ایسا گھرانہ باقی نہ بچا کہ جس میں چند مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہو چکی ہوں۔ صرف بنی اُمیہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے چند مکانات باقی رہ گئے تھے۔‘‘ [3] الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا تقرر نبوی فرد شناسی پر دلالت کناں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ایسے معلّم کا انتخاب کیا جس نے مدینہ میں انقلاب برپا کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کا بطور معلّم تقرر ہجرت مدینہ سے قبل مدینہ میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم بحیثیت معلم قرآن ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، حضرت براء بن عازب کا بیان ہے: "أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَكَانَا يُقْرِئَانِ النَّاسَ" [4]
Flag Counter