عنوان یہ درج ہے کہ ۴۔ کسی ایسے شہری کے خلاف جو پاکستان میں کسی آسامی کے قابل ہو صرف، نسل، مذہب، ذات، جنس، جائے سکونت یا جائے پیدائش کی بنا پر امتیاز نہیں برتا جائے گا بشرطیکہ یوم نفاذ دستور سے 15 سال تک آسامیوں کو کسی خاص فرقہ یا علاقے کے افراد کے لئے پاکستانی ملازمتوں میں ان کی مناسب نمائندگی کی خاطر مخصوص کیا جا سکتا ہے نیز بشرطیکہ کسی ملازمت کے مفاد کی خاطر اس میں معینہ آسامیاں یا ملازمتیں کسی جنس کے افراد کے لیےمخصوص کی جا سکتی ہیں۔ ۵۔ آرٹیکل نمبر 17 کے شق نمبر 1 میں کوئی امر کسی صوبائی حکومت یا مقامی یا دیگر حاکم کو اس گورنمنٹ یا حاکم کے باعث ملازمت کے بارے میں ایسی ملازمتوں پر تقرری سے قبل متعلقہ صوبہ میں سکونت پذیر ہو لیکن شرائط عائد کرنے میں مانع نہ ہو گا۔ [1] 1962ء کا آئین بھی خواتین کوبحیثیت شہری آرٹیکل نمبر 14 میں اس طرح کے حقوق دیتا ہے کہ کسی شہری کو نسل، مذہب، یا جائے پیدائش یا جائے رہائش کی بنا پر ملازمت دینے سے انکار نہیں کیا جائے گا۔ [2] اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973ء کا آرٹیکل نمبر 27 عورتوں کے حقوق کا یوں تعین کرتا ہے کہ کسی شہری کے ساتھ جو بہ اعتبار دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرر کا اہل ہو کسی ایسے تقرر کے سلسلہ میں محض، نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا جائے پیدائش کی بنا پر امتیاز نہیں رکھا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ یوم آغاز سے زیادہ سے زیادہ دس سال کی مدت تک کے طبقے یا علاقے کے لوگوں کے لئے عہدے محفوظ کیے جا سکتے ہیں۔ مزید شرط یہ ہے کہ مذکورہ ملازمت کے مفاد میں مخصوص عہدے پر ملازمتیں کسی ایک جنس کے افراد کے لیے مخصوص کی جا سکتی ہیں۔ اگر مذکورہ عہدوں یا ملازمتوں میں اپنے فرائض اور کارہائے منصبی کی انجام دہی ضروری ہو جو دوسری جنس کے افراد کی جانب سے مناسب طور پر انجام نہ دیے جا سکتے ہوں۔ [3] دساتیر میں عورتوں کے حقوق عمل در آمد کے تناظر میں مادرِ وطن پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہاں کے باسیوں کو آزادی تو مل گئی مگر عورتوں کے حقوق کا حصول ایک کھٹن مرحلہ تھا کچھ حقوق تو انہیں آسانی سے حاصل ہو گئے لیکن چند حقوق کی خاطر انہیں بھر |