ہے خوہ مرد ہو یا عورت۔ اس باب میں جنس یا کسی طرح کی بھی تفریق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا۔ وہ تعلیم و تعلم کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے عبادت متصور کرتا ہے۔حدیث میں آتا ہے۔ ((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ )) [1] ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ اس حدیث میں تحصیل علم کی خاطر جنس و نسل اور دیگر کسی نوعیت کی تفریق کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ مزید برآں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے علاوہ بھی کئی ایک مواقع پر اس اہم ترین انسانی مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔قرآن میں بھی بارہا تعلیم و تعلم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے حتی کہ پہلی وحی میں بھی یہی حکم دیا گیا۔ اور ان میں سے کسی موقع پر بھی صرف جنسی امتیاز کی بنا پر کسی کو تعلیمی عمل سے محروم نہیں رکھا گیا۔ لیکن اس سلسلے میں واضح رہے کہ اسلام کی نظر میں بےحجابانہ اختلاط کی ممانعت کی گئی ہے۔ اور تعلیمی نصاب میں ایسی چیزوں کی آمیزش پر اظہار تشویش کیا گیا ہے کہ جن کی وجہ سے بنیادی اسلامی اقدار پر حرف آتا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا﴾ [2] ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے ۔‘‘ قرآن کی یہ اور اس کے علاوہ دیگر آیات ہماری راہنمائی فرمارہی ہیں کہ مردو زن کا آزادانہ اور بےحجابہ اختلاط ممنوع ٹھہرایا گیا ہے۔ نیز برآں یہ ہے کہ اس میں شرم و حیا اور عفت و عصمت کی تعلیمات پر بھرپور توجہ دی گئی ہے۔ اور 1973ء کے تیسرے آئینی دور میں داخل ہوتے ہی عورتوں کے معاشرتی حقوق کی ضمانت زیادہ بہتر طور پر ملتی ہے کہ ’’مملکت شادی، خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کرے گی۔‘‘ [3] اسی طرح 1973ء کے دستور پاکستان میں عورتوں کے سماجی تحفظ اور سماجی انصاف کے فروغ اور سماجی برائیوں کے خاتمہ کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ آرٹیکل نمبر 37 کی شق 6ملاحظہ ہو۔ ’’منصفانہ اور نرم شرائط کار: یہ یقین کرتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں کو ایسے پیشوں پر مامور نہ کیا جائے جو ان کی |