Maktaba Wahhabi

83 - 106
اور اسی طرح سورۃ النسا میں ارشاد فرمایا: ﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ﴾ [1] ’’مرد عورتوں پر قوّام ہیں ،اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ۔‘‘ چناں چہ اسلام نے عورت کی صلاحیتوں، مزاج اور استعدادکار کے لحاظ سے بنیادی طور پر اس کی ذمہ داریوں کا جداگانہ دائرہ کار متعین کیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ (متوفی1997ء)رقم طراز ہیں: ’’اسلام مرد اورعورت کو مساوی قرار دینے کے باوجود ان کی صنفی و فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے نظام اجتماعی میں ان کو الگ الگ استعمال کرتا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک کو اسی مقام میں رکھتا ہے جس مقام میں وہ بہتر طریق پر معاشرے کو اپنی قابلیتوں سے فائدہ پہنچاسکیں۔‘‘ [2] فلاح وبہبود عورتوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہود کے لئے خواتین کی مختلف غیر سرکاری تنظیموں ()کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ انہی کی کوششوں کے نتیجے میں دساتیر پاکستان میں عورتوں کی فلاح وبہبود کے لئے آرٹیکل نمبر 38 میں ضمانت دی گئی کہ ’’مملکت معیار زندگی بلند کر کے، مفاد عامہ کے منافی چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت اور وسائل پیداوار اور تقسیم کے نامناسب ارتکاز کو روک کر اور آجرو ماجور اور زمیندار ومزارع کے مابین حقوق کے منصفانہ تصفیہ کی ضمانت دیگر بلا لحاظ جنس، ذات ، عقیدہ یا نسل عوام کی فلاح وبہبود حاصل کر لے گی۔‘‘ [3] تعلیمی ، معاشرتی، سیاسی اور عمومی حقوق کاتحفظ 1962ء کے آئین کے تحت عورتوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ بلا تخصیص جنس، سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ آرٹیکل نمبر 12 کے مطابق: ’’کوئی قانون کسی شہری کونسل، مذہب، ذات یا جائے پیدائش کی بنا پر کسی ایسے تعلیمی ادارے میں شریک ہونےسے محروم نہیں کرے گا۔ جو ملک کے ریونیو سےامداد حاصل کرتا ہے۔‘‘ [4] 1973ء کا آرٹیکل نمبر 22 بھی اس طرح کا حق دیتا ہے۔اسلام میں مسلمان پر تعلیم حاصل کرنا فرض کرتا
Flag Counter