کیا جائےگا۔‘‘ [1] مساوات مرد و زن اور اسلامی تعلیمات مساوات مردو زن کے سلسلے میں اسلام طبعی و فطری دائرہ کار کا خیال کیا کرتا ہے۔اسلام کے ہاں مکمل مساوات کی بجائے کچھ حدود میں برابری ہے جب کہ بعض دیگر چیزوں میں نہیں ہے۔ مثلاً تکریم ِانسانیت کے حوالے سے قرآن کا کہنا ہے: ﴿ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ اٰدَمَ ﴾ [2] ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔‘‘ اس آیت کے معنیٰ و مفہوم میں مردو عورت دونوں شامل ہیں۔ شرف وتکریم انسانیت میں دونوں ہی یکساں اور مساوی المرتبت ہیں۔ اسی طرح شرف ایمانی میں بھی دونوں کی حیثیت برابر ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ اَنِّيْ لَا اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ﴾ [3] ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ ایسے ہی نیکی اور تقویٰ میں بھی اللہ کے ہاں دونوں کا اجر و ثواب مساوی ہے۔ اور اگر کوئی عورت ایمان و تقویٰ میں مرد سے زیادہ ہے تو اس زیادتی کا اثر اس کے صلہ اور اجر میں بھی مرتب ہوگا۔قرآن مجیدمیں ہے: ﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ [4] ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ بنیادی انسانی حقوق میں اسلام نے عورت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ عورت کے رشتے اور عمر کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کیا ہے۔ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں میں سے ہر رشتے اور عمر میں جداگانہ احکام دیے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ بنیادی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے اسلام نے دونوں صنفوں کے درمیان فرق روا رکھا ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ﴾ [5] ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مَردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔‘‘ |