Maktaba Wahhabi

81 - 106
میں ان کی حالت جمود و تعطل کا شکار رہی۔ اسلامی تعلیمات سے ان کی وابستگی عمومی طور پر واجبی سی رہ گئی ہے۔ روایات تھیں لیکن شعور اور جذبے سے خالی۔ مسلمانوں کے یہی وہ فکری حالات تھے جن کی موجودگی میں مملکت خداد پاکستان معرض وجود میں آئی۔ پاکستان اپنے قیام سے ہی ان فکری مسائل سے دوچار ہو چکا تھا۔ اہلیان پاکستان کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو یہی کش مکش ہمیں ہر محاذ پر نظر آتی ہے۔ چناں چہ ذیل کے صفحات میں ہم پاکستانی دساتیر میں حقوق نسواں کے حوالے سے کیے گئے کام کا چند ایک پہلووں سے مختصر سا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ جب ہم عورتوں کے حقوق کو پاکستانی معاشرے کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ عورتوں سے پیدائش سے لے کر جوانی تک جنس کی بنیاد پر امتیاز روا رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں مردوں کی اکثریت ابھی تک اسلامی مساوات اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہے۔ ارضِ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس مملکت خداد کو آئینی اعتبار سے تین ادوار سے گزرنا پڑا۔ پہلے دور میں خواتین کو آئینی حقوق سے متعلق وہ آئینی تحفظات نہیں ملے جو اسلامی مملکت ہونے کے اعتبار سے پاکستان کا خاصا ہونا چاہیے تھے۔ 1960ءکا عشرہ خواتین کے حقوق کے اعتبار سے زیادہ بار آور ثابت ہوا۔ 1973ء کا آئین اسلامی بنیادوں پر استوار کیا گیا تو عورتوں کو بھی وہی حقوق دینے کی کوشش کی گئی جو مذہب اسلام نے انہیں ودیعت کیے تھے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورتوں کو دساتیر پاکستان کےحوالے سے مندرجہ ذیل حقوق حاصل ہیں: 1۔مساوات مر دوزن 2۔ معاشرتی، سیاسی اور مجموعی حقوق وتحفظات، تعلیمی حقوق 3۔ فلاح وبہبود 4۔ معاشی حقوق مساوات مردو زن 1956ء کی دفعہ نمبر5اور 1962ء کے آرٹیکل نمبر6 کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’’تمام شہری قانون کے لیے برابر اور مساوی قانونی حفاظت کے حق دار ہیں اور ان کے ساتھ ہر لحاٰظ سے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔‘‘ 1973ء کے آئین میں مساوات مردو زن کا تصور زیادہ واضح صورت میں موجود ہے۔ آرٹیکل نمبر 25 سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’تمام شہری قانون کی نظر میں برابر اور قانون کے مساوی تحفظ کے مستحق ہیں۔ محض جنس کی بنا پر کوئی امتیاز نہیں
Flag Counter