للمفسر برأيه .... " [1] ’’جو شخص قرآن کی تفسیر اپنے رائے سے کرتا ہے لیکن اس طرح کہ ان چاروں ماخذوں (تفسیر بالما ثور کے اصولوں )کو ساتھ رکھتا ہے اور ان سے قرآنی معانی کا استنباط کرتا ہے تو اس کی تفسیر جائز ہوگی اور اس قابل ہوگی کہ اس کا نام تفسیر بالرائے جائز و محمود رکھا جائے۔ اور جو شخص ان اصولوں سے انحراف کر کے تفسیر کرے تو اس کی تفسیر ساقط و مردود ہوگی اور اس کا نام تفسیر بالرائے مذموم وغیر جائز رکھنا ہی صحیح ہے۔ ‘‘ چنانچہ تفسیر بالرائے محمود میں مفسر کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے منقول آثار پر اعتماد کرنا واجب ہے۔ یہ اصول تفسیر با لرائے کرنے والے کے لیے راہ کو روشن کرتی ہیں۔ اس کے برعکس مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تفسیر قرآن کے اصولوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: 1۔ بنیادی اصول۔ 2۔ترجیح کے اصول۔ 3۔ غلط اصول پھر بنیادی اُصول کے تحت چار اصول پیش کئے ہیں: 1۔نظم کلام اور سیاق و سباق کا لحاظ۔ 2۔نظائر قرآن کی روشنی میں مفہوم کا تعین۔ 3۔ كلام میں مخاطب کا صحیح تعین۔ 4۔ الفاظ کے شاذ معانی کا ترک پھر ان میں سے پہلے اصول کے تحت لکھتے ہیں: ’’یہ اصول بنیادی اس لئے ہے کہ کوئی بھی کلام ایسے مفہوم کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اس کے نظام کے مخالف اور اس کے معانی کو غیر مربوط کرنے والا ہو۔ ربط کلام تو ہر عاقل کے کلام کی خصوصیت ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا معجز کلام اس خصوصیت سے خالی کیسے ہو سکتا ہے؟ تفسیر کا یہ اصول نہایت واضح تھا، لیکن بعض منحرف لوگوں نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی اور بعض حدیثیں ایسی گھڑ دیں جن کے با عث نا پختہ عقل رکھنے والے صالح اہل ایمان بھی فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔‘‘ [2] ایک جگہ غلط اصول کے زیر عنوان لکھتے ہیں: ’’قرآن کی تاویل حدیث کی روشنی میں کرنا جب کہ حدیث کی تاویل قرآن کی روشنی میں ہونی چاہئے۔ ‘‘[3] پھر ایک مثال بیان کر کے لکھتے ہیں: ’’یہیں ایک چیز پر خطر اور صحیح بات سے پھسلا نے والی بھی ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کی بات کو اچھی طرح سمجھنے سے پہلے اگر تم حدیث پر پل پڑو گے جس میں صحیح اور سقیم دونوں طرح کی احادیث ہوں تو تمہارا دل ایسی راویات میں |