اٹک سکتا ہے جن کی قرآن میں کوئی اساس نہ ہو اور کبھی وہ قرآن کی ہدایت کے برعکس بھی ہوں۔ اس کے نتیجہ میں تم قرآن کی تاویل میں اعتماد حدیث پر کرو گے اور تم پر حق و باطل گڈ مڈ ہو جائیں گے۔ پس سیدھا راستہ یہ ہے کہ تم قرآن سے ہدایت پاؤ۔ اس پر اپنے دین کی نبیاد رکھو ، اس کے بعد احادیث پر نگاہ ڈالو۔ اگر کوئی حدیث بادی النظر میں قرآن سے ہٹی ہوئی ہو تو اس کی تاویل کلام اللہ کی روشنی میں کرو۔ اگر دونوں میں مطابقت کی کوئی صورت نکل آئے تو تمہاری آنکھیں ٹھندی ہو جائیں گی۔ اگر اس میں ناکامی ہو تو حدیث کے معاملہ میں توقّف کرو اور قرآن پر عمل کرو۔‘‘ [1] نیز لکھتے ہیں: ’’بعض ماخذ اصل و اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض فرع کی۔ اصل و اساس کی حیثیت تو صرف قرآن کو حاصل ہے اس کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔ باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں: ’’1۔احادیث۔ 2۔قوموں کے ثابت شدہ اور متفق علیہ حالات ۔ 3۔گزشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں۔‘‘ [2] ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں: ’’احادیث و روایات کے ذخیرہ سے صرف وہی چیزیں چنی جائیں جو نظم قرآن کی تائید کریں ، نہ کہ اس کے تمام نظام کو درہم برہم کردیں۔“ [3] مزید لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک سب سے زیادہ بے خطر راہ یہ ہے کہ استنباط کی باگ قرآن کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ اس کا نظم و سیاق جس طرف اشارہ کرے اسی طرف چلنا چاہئے۔ ‘‘[4] ليكن سطور بالا میں پیش کردہ اربابِ تفسیر کے بیانات سے مولانا فراہیؒ کے ان نظریات کی کمزوری عیاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کے نظم کے سلسلہ میں مولانا راہِ افراط و غلو پر گامزن ہیں، جو لائق استحسان نہیں ہے۔ |