Maktaba Wahhabi

77 - 106
۵۔ امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قال العلماء: من أراد تفسیر الکتاب العزیز، طلبه أولا من القرآن ... فإن أعیاه ذلك طلبه من السنة ... فإن لم يجده في السّنة رجع إلى أقوال الصحابة ... فإن لم یجد عن أحد من الصحابة رجع إلى أقوال التابعین. " [1] ’’ علما کا کہنا ہے کہ جو قرآن عزیز کی تفسیر کرنا چاہتا ہو، تو پہلے قرآن سے تلاش کرے، اگر یہ ممکن نہ ہو، تو سنت سے، اگر سنت سے بھی نہ ملے، تو اقوال صحابہ کی طرف رجوع کرے اور اگر اقوال صحابہ سے بھی نہ ملے تو تابعین کرام﷭ کے اقوال کو لے۔ ‘‘ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خود سیوطی رحمہ اللہ نظم قرآن کے فوائد کے قائل ہیں، لیکن انہوں نے اسے صرف زائد علوم اور نکات وفوائد میں شمار کیا ہے، اُصول تفسیر میں جگہ نہیں دی۔ متاخرين میں محمد عبد العظيم زرقانی رحمہ اللہ (متوفی1367ھ)نے "العلوم التي یحتاجها المفسّر" کے عنوان سے پانچ علوم کا ذکر کیا ہے، لیکن ان علوم میں بھی نظم قرآن کا علم شامل نہیں کیا۔ [2] اسی طرح ڈاکٹر محمد حسین ذہبی رحمہ اللہ (متوفی1397ھ)نے مفسر کے لیے ضروری ، علوم کے عنوان کے تحت قریباً 15 علوم کی فہرست تیا ر کی ہے لیکن ان میں علم نظم قرآن موجود نہیں ہے۔ [3] حاصل کلام علماے تفسیر نے علم نظم قرآن کو اصول تفسیر تو کجا تفسیر کےلیے ضروری علوم میں بھی شمار نہیں کیا، اب واضح ہے کہ اس کے ذریعے تفسیر ’تفسیر بالرائے‘ ہو گی اور تفسیر بالرائے ، جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ اگر شرائط وضوابط کے مطابق ہو (مثلاً تفسیر بالماثور کے موافق ہو وغیرہ)تو محمود وگرنہ مذموم ہوتی ہے۔ "فمن فسر القرآن برأيه أي باجتهاده ملتزما الوقوف عند هذه ا لمآخذ معتمدا عليها فيما يرى من معاني كتاب اللّٰه كان تفسيره سائغا جائزا خليقا بأن يسمى التفسير الجائز أو التفسير المحمود ومن حاد عن هذه الأصول وفسّر القرآن غير معتمد عليها كان تفسيره ساقطا مرذولا خليقا بأن يسمى التفسير غير الجائز أو التفسير المذموم. فالتفسير بالرأي الجائز يجب أن يلاحظ فيه الاعتماد على ما نقل عن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابه مما ينير السبيل
Flag Counter