صحیح بخاری کی حدیث نقل کی ہے۔ پھر اقوال صحابہ و تابعین کا ذکر کیا ہے۔ اس کے برعکس نظم قرآن سے کوئی استدلال نہیں کیا۔ یہی انداز دوسرے بہت سے مفسرین نے بھی اپنایا ہے۔ اصول تفسیر پر لکھی گئی کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے کہ تفسیر قرآن کے اسالیب میں نظم قرآن کا تذکرہ موجود نہیں ہے ، جیسا کہ ذیل کی سطور سے واضح ہو گا۔ ۳۔ اُصول تفسیر پر پہلی مستقل تصنیف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی728ھ)کی کتاب "مقدمة في أصول التفسیر"ہے۔ اس میں آپ تفسیر کا صحیح طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "فإن قال قائل فما أحسن طرق التفسیر؟ فالجواب أن أصح الطرق في ذلك أن تفسر القرآن بالقرآن. فإن أعیاك ذلك فعلیك بالسنة ... وإذا لم نجد التفسير في القرآن ولا في السنة رجعنا في ذلك إلى أقوال الصّحابة ... إذا لم تجد التفسیر في القرآن ولا في السنة ولا وجدته عن الصحابة فقد رجع کثیر من الأئمة في ذلك إلى أقوال التابعین ... فإن اختلفوا فلا یکو ن قول بعضهم على بعض ولا على من بعدهم ویرجع في ذلك إلى لغة القرآن والسّنة أو عموم لغة العرب. " [1] ’’ جب کوئی یہ پوچھے کہ تفسیر کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ اگر قرآن و حدیث دونوں سے نہ ملے، تو اقوال صحابہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا، اگر قرآن ، حدیث اور اقوال صحابہ سب میں نہ مل پائے تو اکثر ائمہ کرام کے نزدیک اقوال تابعین کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اگر تابعین کا اختلاف ہو ، تو ان کی بات دوسرے تابعین یا بعد والوں پر حجت نہ ہوگی، بلکہ اس بارے میں لغت قرآن و حدیث یا تمام عربوں کی لغت کو دیکھا جائے گا۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک مستقل تصنیف ہی اصول تفسیر پر کی ہے، لیکن اس میں کہیں نظم قرآن کو جگہ نہیں دی۔ ۴۔ امام زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "للناظر في القرآن لطلب التفسیر مآخذ كثيرة، أمهاتها أربعة: الأول: النقل عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم . الثانى: الأخذ بقول الصحابي. الثالث: الأ خذ بمطلق اللغة. الرّابع: التفسیر بالمتتضی من معنی الکلام والمقتضب من قوة الشرع. " [2] ’’ تفسیر کی جستجو کی غرض سے قرآن میں غور کرنے والے شخص کے لئے بکثرت ماخذ پائے جاتے ہیں، ان میں سے چار ماخذ اصل صول ہیں: 1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کا پایا جانا ۔ 2۔صحابی سے قول اخذ کرنا۔ 3۔ مطلق لغت کو ماخذ بنانا 4۔وہ تفسیر جو کہ کلام کے معنیٰ کے مقتضی سے اور قوت شرع سے اخذ کی گئی رائے سے کی جائے۔ ‘‘ |