Maktaba Wahhabi

75 - 106
فوائد اور نکات کی قبیل سے شمار کیا ہے۔ جیسا کہ امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ "وهذا النوع يهمله بعض المفسرين أو كثيرهم وفوائده غزيزة. " [1] ’’ مفسرین کی ایک بڑی جماعت میں سے جو اس علم نظم کی اہمیت کو نظر انداز کرتی ہے، حالانکہ اس میں بڑے فوائدپنہاں ہیں۔ ‘‘ علوم قرآن پر لکھی گئی جامع کتابوں میں بھی نظم قرآن کو اصول تفسیر ، شرائط تفسیر یا مفسر کی شروط میں شمار نہیں کیا گیا۔ جمہور اہل سنت نے اصول تفسیر میں جن چیزوں کو ملحوظ رکھا ہے وہ یہ ہیں: 1۔ قرآن 2۔ حدیث 3۔اقوال صحابہ 4۔ اقوال تابعین رحمہم اللہ 5۔ اسرائیلی روایات (کچھ شروط کے ساتھ) 6۔ لغت عربی (کچھ شروط کے ساتھ) نظم قرآن کو اس میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ معتبر تفاسیر میں انہی اصولوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، جیسا کہ سطور ذیل سے معلوم ہو گا۔ ۱۔ تفسیر بالماثور میں سب سے مشہور تفسیر طبری ہے۔ امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (متوفی310ھ)کے اسلوب کو دیکھنے سے بات عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ قرآن کی تفسیر قرآن سے پھر حدیث سے، پھر اقوال صحابہ سے ، پھر اقوال تابعین رحمہم اللہ سے اور پھر لغت وغیرہ سے کرتے تھے، ایک مثال ملاحظہ فرمائیں: امام طبری کی تفسیر میں آپ نے سب سے پہلے تفسیر کے سلسلے میں سید نا عبداللہ بن مسعود کی قراء ت پیش کی ہے، فرماتے ہیں: "ويذكر أن ذلك في قراء عبد اللّٰه وقد تب وفي دخول قد فيه دلالة على أنه خبر. " [2] ’’ بیان کیا جاتا ہے کہ سید نا ابن مسعودؓ کی قراء ت میں وقد تب تھا ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ جملہ خبر یہ ہے۔ ‘‘ یہ بات تو مسلم ہے کہ قراء ت کے ذریعے کوئی معنی متعین کرنا تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔ اس کے بعد چونکہ بر موقع کوئی مرفوع روایت نہ تھی لہٰذا اقوال تابعین رحمہم اللہ پیش کیے ہیں، اس کے بعد سبب نزول بیان کر کے اس پر روشنی ڈالی ہے، لیکن نظم قرآن کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ ۲۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ (متوفی 774ھ)کا تو مشہور اسلوب ہے کہ وہ تفسیر کرتے وقت زیرتفسیر آیت سے ملتی جلتی بہت سی آیات پیش کرکے تفسیر کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر اصول تفسیر میں ان کے ہاں بھی حدیث نبوی ہے، مثلاً مذکورہ مثال ہی کے تحت ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو گا کہ آیات لکھ کر اس کے بعد آپ نے بسند
Flag Counter