Maktaba Wahhabi

74 - 106
قائلين نظم قرآن اس کے برعکس اس کے قائلین بھی موجود ہیں، ان میں سے ایک تو امام بقاعی ہیں، جنہوں نے اسے مدنظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی تفسیر "نظم الدرر في تناسب الآ یات والسور" لکھی۔ اسی طرح اس کے ایک حامی ابو جعفر بن زبیر بھی ہیں جنہوں نے "البرهان في مناسبة ترتیب سور القرآن" کے نام سے اس موضوع پر کتاب لکھی۔ امام سیو طی رحمہ اللہ بھی اس کے قائل تھے، آپ لکھتے ہیں: "وکتابي الذي صنعته في أسرار التنزيل کافل بذلك جامع لمناسبات السور والآیات مع ما تضمنه من بیان وجوه الاعجاز وأسالیب البلاغة وقد لخصت منه مناسبات السور خاصته في جزء لطیف سميته: تناسق الدرر في تناسب السور. " [1] ’’ میری وہ کتاب جسے میں نے قرآن مجید کے اسرا ر و رموز کے حوالے سے مرتب کیا ہے وہ اس سلسلہ میں مدد گارہے، اس میں آیتوں اور سورتوں کے باہمی ربط و نظم کے ساتھ ساتھ قرآن کے وجوہ اعجاز اور اسالیب بلاغت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں سے سورتوں کے باہمی نظم کے حصہ کی تلخیص کرکے میں نے اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کر دیا ہے اور اس کا نام میں نے "ناسق الدرر في تناسب السور" رکھا ہے۔ ‘‘ ابوالحسن الشہرابانی فرماتے ہیں: "أول من أظهر ببغداد علم المناسبة ولم نكن سمعناه من غيره هو الشّيخ الإمام أبو بكر النيسابوري وكان غزير العلم في الشريعة والأدب وكان يقول على الكرسي إذا قرئ عليه الآية لم جعلت هذه الآية إلى جنب هذه؟ وما الحكمة في جعل هذه السورة إلى جنب هذه السورة؟ وكان يزري على علماء بغداد لعدم علمهم بالمناسبة. " [2] ’’ پہلے شخص جنہوں نے بغداد میں علم مناسبت (نظم)کو ظاہر کیا وہ ابو بکر نیشاپوری ہیں ۔ فقہ و ادب میں ان کا بڑا رتبہ تھا۔ ان کے لئے منبر رکھا جاتا تھا جس پر بیٹھ کر وہ قرآن کی آیتوں کی شرح کرتے اور بتاتے کہ فلاں آیت فلاں آیت کے پہلو میں کیوں رکھی گئی اور فلاں سورت کو فلاں سورت کے ساتھ رکھنے میں کیا حکمت ہے۔ اور علماے بغداد کی تنقیص کرتے تھے کہ وہ علم نظم سے محروم ہیں۔‘‘ نظم قرآن اور جمہور مفسرین مذکورہ تمہید سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جمہور مفسرین نے نظم قر آن کو بے فائدہ یا کم از کم غیر اہم سمجھا ہے۔ نیز متقدمین میں سے جنہوں نے نظم و مناسبت کے علم کی اہمیت و افادیت پر بات کی ہے انہوں نے اسے
Flag Counter