Maktaba Wahhabi

73 - 106
مختلف احکام لیکر نازل ہوئیں۔ جس کلام کا حال یہ ہو، وہ باہم دگر مربوط کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ [1] ماضی قریب کے مشہور مفسر امام شو کانی رحمہ اللہ (متوفی1250ھ)نے بھی نظم قرآن کی تلاش کو لا یعنی اور وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت (40)کے تحت فرماتے ہیں: ’’جان لو کہ بہت سے مفسرین نے ایک زحمت طلب علم دریافت کیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زنی کی ہے جس میں تیرنے کے وہ مکلف نہیں بنائے گئے۔ انہوں نے ایک ایسے فن میں اپنے اوقات صرف کیے جو ان کے لیے قطعی سود مند نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو ایسی مجر درائے اور گمان سے کام لینے پر مجبور کیا جو کتاب الہٰی کے معاملات میں بالکل ممنوع ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ انہوں نے ترتیب کے مطابق قرآنی آیات کی تنظیم کے درمیان مناسبت کا التزام کیاہے اور اس راہ میں ایسے تکلفات اور اس قدر تصنع سے انہیں کام لینا پڑا ہے کہ حق و انصاف پناہ مانگتے ہیں۔ کلام اللہ تو دور کی بات ماہرین بلاغت کا کام بھی ایسے تکلفات سے مبرا ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے اس موضوع پر علیحدہ سے کتابیں تصنیف کی ہیں اور مناسبت کو تالیف کا اہم ترین مقصد قرار دیا ہے، جیسا کہ بقاعی نے اپنی تفسیر میں کیا ہے۔‘‘ [2] اسی طرح وہ تمام مفسرین بھی بالواسطہ اسی رائے کے قائل تھے جنہوں نے اپنی تفاسیر میں نظم قرآن کے حوالے سے کوئی بحث نہیں کی اس لحاظ سے مفسرین کی بڑی تعداد اسی زمرے میں آتی ہے، جیسا کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے امام رازی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: "رأیت جمهور المفسرین معرضین عن هذه اللطائف" [3] ’’ میں نے جمہور مفسرین کو دیکھا ہے کہ وہ اس قسم کے لطائف سے اعراض کرتے ہیں۔ ‘‘ اسی طرح امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وهذا النوع يحمله بعض المفسرین أو کثیر منهم و فوائده عزيره" ’’ مفسرین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اس علم کی اہمیت کو نظر انداز کرتی ہے حالانکہ اس میں بڑے فوائد پنہاں ہیں۔‘‘ [4]
Flag Counter