Maktaba Wahhabi

72 - 106
آیات اور حکمت کی جو تعلیم ہوتی ہے اس کا چرچا کرو۔‘‘ ایک اور مقام پر دین کی اصولی باتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ مِمَّا اَوْحٰى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ١ ﴾[1] ’’ یہ ان باتوں میں سے ہیں جو تمہارے رب نے حکمت میں سے تمہاری طرف وحی کی ہیں۔‘‘ اسی طرح مختلف مواقع پر قرآنِ مجید کے دلائل وبراہین کو حکمت بالغہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور خود قرآن کو قرآن حکیم اور کتاب حکیم وغیرہ کہا گیا ہے۔ مثلاً ﴿ حِكْمَةٌۢ بَالِغَةٌ ﴾[2] ’دل نشیں حکمت‘اور ﴿وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ﴾[3] ’شاہد ہے پر حکمت قرآن،اس کےعلاوہ چند اور ادلّہ کے ذکر کےبعد مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ان وجوہ کی بنا پر حکمت سےصرف حدیث کو مراد لینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے، بلکہ حدیث حکمت میں شامل ہے۔ یہ غلط فہمی کتاب اور حکمت، دونوں لفظوں کے اکٹھے ہو جانے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، لیکن ہم نے جو پہلو واضح کیے ہیں ان کی روشنی میں دونوں کے حدود الگ الگ ہو جاتے، جسکے بعد یہ غلط فہمی باقی نہیں رہتی۔‘‘ [4] نظم قرآن اور ارباب ِ علم کی آراء علم نظم قرآن کی اہمیت و افادیت کے بارے میں اہل علم کی آراء مختلف ہیں۔ بعض اہل علم اس کی افادیت کے نہ صرف قائل تھے، بلکہ انہوں نے قرآن مجید کی تفسیر میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا ، جب کہ بعض اسے تکلف محض سے تعبیر کرتے ہیں اور نظم قرآن کے ایک نمایاں مخالف اور ناقد ہیں۔ ذیل میں دونوں نقطہ ہائے نگاہ کے حاملین کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مخالفین نظم قرآن عزالدین بن عبدالسلام رحمہ اللہ (متوفی659ھ)لکھتے ہیں: ’’مناسبت ایک عمدہ علم ہے مگر کلام کےاور ارتباط کے لئے شرط ہے کہ وہ ایسی ساخت کا حامل ہو جس میں وحدت ہو اور اس کا اول و آخر مربوط ہو۔ اگر کلام مختلف اسباب پر مشتمل ہو تو اس میں باہم ربط نہ ہوگا۔ جو شخص ایسے کلام کو مربوط بنانے کی کوشش کرے گا وہ تکلف و تصنع کا سہارا لینے پر مجبور ہوگا اور ایسے ربط کی تلاش میں جس پر اسے قدرت نہ ہوگی سر کھپائے گا جو رکیک اور کمزور ہو گا جس سے ہر اچھا کلام چہ جائیکہ وہ بہترین کلام ہو، محفوظ ہوتا ہے۔ قرآن پاک کا نزول بیس سال سے زائد عرصہ میں ہوا اور یہ آیات مختلف اسباب کے تحت
Flag Counter