ہوتی ہےجو اس کی قبل والی آیت سے بہت دور واقع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے بعض ذہین علما اس طرح کی آیتوں میں جب کوئی معقول اور مناسب تناسب نہ پاسکے تو انہوں نے تناسب ہی کا انکار کر دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس طرح کی آیات قرآن میں بہت ہیں جو اپنے پاس والی آیت سے ربط نہیں رکھتیں اور عموماً اس طرح کی مشکلات سے انہی مقامات پر سابقہ پیش آتا ہے جہاں کوئی آیت یا آیتوں کا مجموعہ اپنے پاس والی آیت سے بہت دورکسی دوسری آیت سے متعلق ہوتاہے۔[1] مکمل قرآن کریم کا نظم قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے داخلی و خارجی نظم کے متعلق مذکورہ بالا اہل علم کے ہاں اگر چہ کافی بحثیں ملتی ہیں ، لیکن ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ پورا قرآن بھی ایک ایسی وحدت ترتیب اور تنظیم رکھتا ہے جو اسے شروع سے آخر تک ایک کتاب کی طرح منضبط کلام کی شکل مہیا کرتی ہے۔ متاخرین میں سے جن اہل علم نے پورے قرآن مجید کو مربوط و منظم کتاب کی طرح ایک وحدت دینے کی کوشش کی ہے، ان میں مولانا حميد الدين فراہی رحمہ اللہ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے اس کے لئے نظم قرآن اور نظام قرآن کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ انہوں نے نظم قرآن کے سابقہ تصورات کو وسعت دیتے ہوئے ایک نیا نظریہ اور فلسفہ پیش کیا ہے۔ وه لکھتے ہیں: ”بعض علما نے آیات اور سورتوں کی باہمی مناسبت کے باب میں کئی تصانیف چھوڑی ہیں، لیکن نظم قرآن کے باب میں خاص کوئی تصنیف میرے علم میں نہیں آئی۔ میرے نزدیک نظام اور مناسبت میں فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ مناسبت نظام کا محض ایک حصہ ہوتی ہے۔‘‘ [2] مولانا فراہی رحمہ اللہ نے نظم قرآن کا جو فلسفہ متعارف کروایا ہے اسکی رو سے سورہ فاتحہ اس آسمانی کتاب کا دیباچہ، معوذ تین خاتمہ اور درمیانی سورتیں مختلف ابواب ہیں۔ ان ابواب کے الگ الگ مرکزی مضمون (عنوان)ہیں اور ہر سورت اپنے باب کی ایک فصل کی حیثیت رکھتی ہے اور فصل کا بھی ایک مرکزی عنوان ہے جو اپنے باب کے مرکزی عنوان کے ساتھ ربط رکھتا ہے۔ یوں پورا قرآن ایک کتابی و تصنیفی ربط کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا یہ فلسفہ ان کی معروف تصنیف دلائل النظام میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور اس میں انہوں قرآن مجید کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے ہر سورت کا مرکزی موضوع (عمود)اور پھر ان کے ابواب کا مرکزی موضوع بھی متعین کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے اس فلسفہ و نظر یہ کو عملی شکل دیتے ہوئے قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی تفسیر بھی اسی نہج پر کی ہے، مگر وہ پورے قرآن کی تفسیر نہ کر پائے۔ البتہ ان کے بعد ان کے |