Maktaba Wahhabi

69 - 106
شاگرد رشید جناب امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ (متوفی1997ء)نے اسی فلسفہ کی آبیاری کرتے ہوئے 9 جلدوں پر مشتمل ’تدبر قرآن‘ کے نام سے پورے قرآن مجید کی ضخیم تفسیر لکھی اور اپنی خداداد عقل و بصیرت سے ان تمام مباحث پر بھی قلم اٹھایا جنہیں ان کے استاذ فراہی نے تشنہ چھوڑ دیا تھا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بعض مقامات پر اپنے استاد سے اختلاف بھی کیا ہے۔ نظم کی ضرورت و افادیت مولانا فراہی رحمہ اللہ کو نظمِ قرآن پر قلم اُٹھانے کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟ انہوں نے اس تصور کو اس قدر اہمیت کیوں دی؟ اس حوالے سے وہ رقم طراز ہیں: "إني رأیت جلّ اختلاف الآراء في التأویل من عدم التزام رباط الآيات، فإنه لو ظهر النّظام واستبان لنا عمود الكلام لجمعنا تحت راية واحدة وكلمة سواء. " [1] ’’ میں نے دیکھا کہ تاویل کا بیشتر اختلاف اس بات کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے آیات کے اندر نظم کا لحاظ نہیں رکھا۔ اگر نظمِ کلام ظاہر ہوتا اور سورت کا عمود یعنی مرکزی مضمون واضح طور پر سب کے سامنے ہوتا تو تاویل میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہوتا، بلکہ سب ایک ہی جھنڈے کے نیچے اور ایک کلمہ پر جمع ہوجاتے۔‘‘ گویا مولانا کے ہاں فہم قرآن کے سلسلہ میں تاویلات کا دروازہ کھلنے کی وجہ ہی نظم قرآنی کی رعایت نہ کرنا ہے۔ اور اگر آئندہ اس کا خیال کر لیا جائے گا تو اس کا سدباب کرنا ممکن ہو جائے گا۔ مولانا کا خیال ہے کہ فہم کلام کے لیے نظم کلام ضروری ہے۔ متکلّم نے جس مقصد کے لیے اپنے کلام اور اسلوبِ بیان کو ذریعہ بنایا ہے اس سے اس وقت تک واقف نہیں ہوا جا سکتا جب تک کلام کے مختلف حصّوں کا اجمالی تعلّق معلوم نہ ہو۔ ایک جملہ دوسرے متّصل جملہ سے کئی اعتبارات سے مربوط سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے موقع پر جو شخص جملوں کا صحیح ربط نہیں سمجھ سکتا، اس کو متعین کرنے میں غلطی کر دیتا ہے تو وہ اصل مفہوم کھو دیتا ہے اور کلام میں جو علم وحکمت پائی جاتی ہے اس پر وہ مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس کی مزید وضاحت وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: "وبالجملة محال أن تفهم كلاما من دون أن تعلم نسبة بعضها إلى بعض. فإن أخذت كل جزء طويل على حدته، غاب عنك بعض معانيه. ثم إن قصرت عن فهم نسبة أجزاء هذا الجزء، غاب عنك طرف آخر. حتى إنك تنقص من فهمك شيئًا فشيئًا، بقدر ما تقصر عن فهم النّسب التي بين أجزائه، فإذا تبيّن لك هذه النّسب والرّوابط بين أجزائه ورأيت أنه
Flag Counter