رازی رحمہ اللہ (متوفی606ھ)کے ہاں بھی ملتی ہے، لیکن زمخشری کی طرح رازی نے بھی متفرق طور پر کہیں کہیں اس پر بحث کی ہے، پھر ان کے بعد امام بقاعی رحمہ اللہ (متوفی885ھ)نے بھی اس طرف اپنی عنان توجہ منعطف کی اور "نظم الدرر في تناسب الآ یات والسور" نامی اپنی تفسیر میں نظم قرآن پر کافی کام کیا۔ اسی طرح شیخ مخدوم علی مہما ئمی (متوفی835ھ)، امام سیوطی (متوفی911ھ)، محی الدين ابن عربی صوفی (متوفی638ھ)، علامہ ابو جعفر ابن الزبیر (متوفی708ھ)اور ابوالحسن الضرانی رحمہم اللہ (متوفی637ھ)نے بھی نظم ومناسبت کی رعایت سے تفسيریں لکھیں۔ نظم قرآنی کا فراہی مفہوم مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ہاں نظم کا کیا مفہوم ہے، ملاحظہ کیجئے: "وبالجملة فمُرادنا بالنّظام أن تكون السّورة كاملًا واحدًا، ثم تكون ذات مناسبة بالسّورة السّابقة واللّاحقة، أو بالتي قبلها أو بعدها على بعد ما، كما قدمّنا في نظم الآيات بعضها مع بعض، فكما أن الآيات ربما تكون معترضة، فكذلك ربما تكون السّور معترضة. وعلى هذا الأصل ترى القرآن كلّه كلاما واحدا، ذا مناسبة وترتيب في أجزائه من الأوّل إلى الآخر. فتبيّن مما قدّمنا أن النّظام شيء زائد على المناسبة وترتيب الأجزاء. " [1] ’’نظم سے ہماری مراد سورہ کے اجزاء کی وہ باہمی مناسبت ہے، جس کے معلوم ہونے پر پوری سورت ایک وحدت میں ڈھل جائے۔ اس صورت میں کلام کا مفہوم مربوط اور ایک ہی مرکزی مضمون کا حامل نظر آتا ہے کہ پوری سورہ مشخص ہو کر سامنے آتی ہے اور کلام میں ایک جمال، ایک پختگی اور وضاحت کا ادراک ہوتا ہے۔ نظم محض ایک سورت تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس سورت کی مناسبت ان سورتوں کے ساتھ بھی معلوم ہو جائے جو اس کے ساتھ متصل ہیں۔ اگر ان کے ساتھ اس کی مناسبت واضح نہ ہو تو ان سورتوں کے ساتھ اس کا تعلق معلوم ہو جائے جو اس سے پہلے یا بعد میں کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ جس طرح بعض آیات جملہ معترضہ کے طور پر کلام میں آجاتی ہیں اسی طرح بعض سورتیں بھی معترضہ سورتیں بن کر آئی ہوں۔ نظم معلوم ہو جانے کے بعد اول سے آخر تک پورا قرآن مناسبت و ترتیب رکھنے والا اور کامل وحدت سے متصف نظر آئے گا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نظم محض مناسبت یا محض ترتیب اجزاء سے زائد ایک چیز ہے۔‘‘ گویا مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک نظم آیات کو سمجھنے کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ دو آیتوں یا دو مضامین کے اندر کسی |