ہے۔اور قرآن کی صحت اور صداقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کا نزول ایسے معجزانہ نظم کے ساتھ ہوا ہے جو ہر کسی کی طاقت سے بلند ہے۔‘‘ [1] زمخشری نے نظم قرآن کی اصطلاح کو مزید وسعت دیتے ہوئے مختلف آیات کا باہمی نظم و ربط تلاش کرنے کی طرف بھی توجہ کی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے جو کوشش کی اس کے چند نمونے سطور ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔سورہ اعراف میں حضرت آدم و ابلیس کا واقعہ بیان ہوا ہے اور اس کا اختتام اس آیت پر ہوا ہے: ﴿ قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ٭ قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَ فِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ﴾ [2] ’’ اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدّت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے۔ اور فرمایا: وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخرِکار نکالا جائے گا۔‘‘ اس کے فوراًبعد یہ آیت ہے: ﴿ يٰبَنِيْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ﴾ [3] ’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصّوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں ۔‘‘ اس آیت کا ما قبل سے بظاہر کوئی تعلق نہیں نظر آتا ، مگر امام زمخشری رحمہ اللہ ان میں نظم ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ آیت سیاق کلام سے منقطع ہو کر "على سبیل الاستطراد"آگئی ہے۔ اس سے پہلے کے واقعہ میں آدم و حواء کا تذکرہ تھا اور کہا گیا تھا کہ آدم و حواء کے ستر کھل گئے اور وہ اپنے جسم کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے ۔ یہاں لباس کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ اپنے احسان کا اظہار کر رہا ہے اور اس بات سے باخبر کر رہا ہے کہ ننگا پن اور عریانیت باعث رسوائی ہے اور ستر پوشی تقویٰ کا عظیم باب ہے۔‘‘ [4] نظم قرآن کے بارے میں آیات کی باہمی مناسبت پر جو گفتگو علامہ زمخشری کے ہاں ملتی ہے، وہی فخر الدين |