فراہی رحمہ اللہ و اصلاحی رحمہ اللہ نے متعارف کروایا ہے، بلکہ ان کے ہاں نظم قرآن سے مراد یہ تھا کہ قرآن مجید کے محض الفاظ و کلمات ہی معجزانہ حیثیت نہیں رکھتے اور نہ فقط ان کے معانی کا یہ حال ہے، کیونکہ یہی الفاظ و معانی تو عربوں کے ہاں بھی مروج تھے، بلکہ ان الفاظ و معانی کی ترکیب سے جو کلام قرآنی آیات اور قرآنی جملوں کی شکل میں نازل ہوتا تھا، وہ معجزہ تھا اور اس جیسی ترکیب پر مبنی ایک سورت بھی پیش کرنے سے کفار عاجز آگئے تھے۔ امام خطابی رحمہ اللہ اسی پس منظر میں فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نظم عمدہ الفاظ فصیح اور معانی حسین ہیں۔ اس نے توحید کی تعلیم دی، شرک سے اجتناب کی تلقین کی، اطاعت الہٰی پر ابھارا اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے ضابطے بتائے، وعظ و تبلیغ اور امر با لمعروف و نہی عن المنکر کے اصول واضح کیے اور ان ساری تعلیمات کو نظم کی لڑی میں اس طرح منسلک کردیا کہ ذرا سادھا گا ٹوٹا اور سارے موتی منتشر ہو گئے۔‘‘ [1] یہی بات قاضی عبدالجبار معتزلی اس طرح پیش کرتے ہیں: ’’یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فصاحت مفرد کلمات میں نہیں ہوتی، بلکہ ایک مخصوص طریقہ کو اختیار کرکے کلام میں نظم و ارتباط پیدا کرنے سے فصاحت پیدا ہوتی ہے۔ نظم و تالیف کے ساتھ ہر لفظ کی ایک صفت ہونی چاہئے۔ یہ صفت بسا اوقات نظم و ترکیب سے اپنا مقام بناتی ہے اور کبھی اعراب کے ذریعہ اور کبھی موقع و محل سے امتیاز حاصل کر لیتی ہے۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھی شکل نہیں ہے۔‘‘ [2] نظم قرآنی کے سابقہ تصور میں وسعت نظم کی اصطلاح متقدمین علمائے بلاغت کے ہاں جس معنیٰ و مفہوم میں مستعمل تھی، اس میں توسیع سب سے پہلے علامہ زمخشری معتزلی رحمہ اللہ (متوفی538ھ)نے کی۔ انہوں نے بھی اسی بات کا اظہار کیا کہ قرآن مجید اپنے جملوں کی ترکیب و تنظیم کے حسن بلاغت کی وجہ سے معجزہ ہے اور اس کے مقابلہ کا بلیغ جملہ پیش کرنے سے مخلوق عاجز ہے۔ علامہ موصوف سورہ نساء کی آیت نمبر 166 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اللہ نے قرآن کو اپنے اس علم خاص کے ساتھ نازل کیا ہے جس سے کوئی واقف نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کی ترتیب وتنظیم ایسے اسلوب اور نظم کے مطابق ہے جو ہر صاحب بلاغت اور صاحب بیان کے بس سے باہر |