مولانا فراہی رحمہ اللہ (متوفی1930ء)کے ہاں قرآنِ مجید کو سمجھنے اور صحیح تاویل کی تعیین میں نظمِ قرآن كو اوّلین اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بعض علما نے اس کے لیے علمِ مناسبت کی تعبیر اختیار کی اور بعض نے ربط کا نام دیا۔ دورِ اوّل کے مفسرین اور ادباء کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح اگرچہ بنفس نفیس کوئی نئی نہیں۔ اولین مفسرین کے ہاں اس کا استعمال ضرور موجود تھا تاہم ان کے نزدیک نظم اور مناسبت کی اصطلاحات ہم معنیٰ تھیں۔ قرآن کریم علوم ومعارف کا بحر پیکراں اور علم وحکمت کا ایک خزانہ ہے، جس کے موتی کبھی شمار نہیں کیے جا سکتے۔ ارباب مسلم صدیوں سے قرآن حکیم میں غور وفکر کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بے شمار نکات و لطائف منصّۂ شہود پر آئے ہیں، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ قرآنی نکات و دقائق کا ایک اہم گوشہ ’نظم ومناسبت‘ بھی ہے۔ماہرین علوم قرآن نے اس کو بھی مرکز التفات ٹھہرایا ہے اور اپنے نتائج فکر پیش کیے ہیں۔لیکن اس کی طرف انتہائی توجہ گزشتہ صدی کے ایک جید عالم دین مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے ہاں نظر آتی ہے۔ چناں چہ درج ذیل سطور میں ہم مولانا کے تصور نظمِ قرآنی کا ایک تجزیاتی نقطہ نظر سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں اسی حوالے سے بحث کی جا رہی ہے۔ نظم قرآن کا آغاز و ارتقا بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نظم قرآنی کا جو تصور مولاناحمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے ہاں نظر آتا ہے وہ سابقہ علمی روایت سے منفرد اور جداگانہ ہے۔ لیکن ا س تصور کی اپنی تمام تر مقتضیات اور لوازمات کے ساتھ از سرنو دریافت کو مولانا فراہی کی طرف منسوب کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ قبل ازیں علما و مفسرین اس حوالے سے کافی کچھ لکھ چکے ہیں۔ تاہم یہ بات معلوم نہیں کہ قرآن مجید کے نظم و ربط کے سلسلہ میں سب سے پہلے کس صاحب علم نے گفتگو فرمائی، البتہ متقدمین میں سے جن اصحاب نے اس سلسلہ میں کلام کیا ہے، ان میں سے امام ابن قتیبہ (متوفی 276ھ)، ابوالحسن علی بن عیسیٰ رمانی معتزلی (متوفی 383ھ)، قاضی عبدالجبار اسد آباد معتزلی (متوفی 415ھ)، امام خطابی (متوفی 388ھ)، ابن جعفر با قلانی اشعری (متوفی 403ھ)، عبدالقاہر جرجانی رحمہ اللہ (متوفی 471ھ)کے نام سر فہرست ہیں۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے "تأویل مشکل القرآن" میں، رمانی نے "النکت في إعجاز القرآن" میں، قاضی عبدالجبار نے "المغني في أبواب التوحید والعدل" کی سولہویں جلد میں، خطابی نے "البیان في إعجاز القرآن" میں با قلانی نے "إعجاز القرآن "میں اور جرجانی نے "دلائل الاعجاز" میں اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ان اصحاب علم نے نہ صرف یہ کہ اپنی تصنیفات میں نظم قرآن (نظم کلام )کی اصطلاح استعمال کی، بلکہ نظم کلام کو قرآن مجید کے اعجاز کا محل بھی قرار دیا، لیکن ان کے ہاں نظم کلام سے وہ مفہوم مراد نہیں تھا جسے مولانا |