Maktaba Wahhabi

60 - 106
۲۔ اجتہادشریعت یعنی قرآن وسنت کے أحکام میں تبدیلی یاان کے نسخ کا نام ہے ؟ ۳۔ اجتہاد قرآن و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے؟ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ دین محمدی اور شریعت اسلامیہ مکمل ہو چکی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہو چکاہے۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ اورڈاکٹر جاوید اقبال کا خیال یہ ہے کہ قرآن کے بعض مفصل احکام ایسے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تہذیب و تمدن کے لیے موزوں تھے ، آج کل کے زمانے میں ان احکامات کی پیروی ناقابل عمل ہے، لہٰذا ان احکامات میں اجتہاد کرتے ہوئے انہیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کر نا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں ہم اسے شریعت کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس کی تبدیلی کادعوی کرنے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ پس ان دو حضرات کے نزدیک اجتہادشرعی احکام کو معاصر تہذیب وتمدن کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے کا نام ہے۔الطاف احمد صاحب کاتصور اجتہاد یہ ہے کہ قرآن کے مجمل احکامات کی تشریح میں مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے حالات کا حل پیش کرتی ہے لہٰذا آج ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے قرآن کے ان احکامات کی از سر نو تعبیر و تشریح کرنی ہو گی۔مثلاًوہ کہتے ہیں کہ قرآن نے زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے لیکن اس کے نصاب کو بیان نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے عرف و رواج کو ملحوظ رکھتے ہوئے غنا کا ایک نصاب مثلاًساڑھے سات تولے سونا‘ ساڑھے باون تولے چاندی‘ پانچ وسق غلہ وپھل اور مال مویشیوں کا نصاب وغیرہ مقرر کر دیاتھا ۔آج ہمیں اپنے زمانے کے ظروف و حالات کے مطابق غنا کی ایک تعریف کرتے ہوئے اس نصاب میں تبدیلی کرناچاہیے اور یہی اجتہاد ہے۔قرآن و سنت کے احکامات میں اس قسم کی تفریق کرناکہ قرآن کے مفصل احکامات تو دائمی ہیں جبکہ سنت کے مفصل احکامات وقتی و عارضی دور کے لیے تھے، اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ شرعی دلائل اس نظریے کے خلاف قائم ہیں جیسا کہ ہم سابقہ سطور میں بیان کر چکے ہیں۔قرآن اور سنت کے احکامات اپنے دوام کے اعتبار سے ایک جیسی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا سنت کے احکامات کو وقتی و عارضی قرار دینا شریعت کو ناقص قرار دینے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب کی تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شریعت کی جامعیت اور تکمیل کے قائل نہیں ہیں۔کیونکہ شریعت اگر مکمل ہے تویہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے کہ کسی مسئلے میں اگر قرآن وسنت خاموش ہوں تو اجتہاد کیاجائے گا۔اگر قرآن و سنت کسی مسئلے میں خاموش ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت ہر مسئلے کا حل پیش نہیں کرتے اور شریعت اسلامیہ ایک جامع شریعت نہیں ہے۔گویا شریعت کی تکمیل کا کام تاقیامت بذریعہ اجتہاد و مجتہدین جاری و ساری رہے گا۔یہ دونوں انتہاء پسندانہ نکتۂ نظر اسلام کے بنیادی تصورات و اساسات
Flag Counter