Maktaba Wahhabi

61 - 106
ہی کے خلاف ہیں۔ختم نبوت کے عقیدے کا بھی بنیادی تقاضایہی ہے کہ کسی قسم کی بھی شریعت سازی یا شریعت میں تبدیلی کے دروازے کو بند کیا جائے۔ ان دونوں انتہاء پسندانہ نکتہ ہائے نظر کے مابین أئمہ سلف کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اجتہاد’حکم شرعی‘ کی تلاش کانام ہے۔یعنی جب بھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا ہے کہ جس کا حکم واضح اور صریح انداز میں قرآن و سنت میں موجود نہ ہو تو قرآن وسنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں سے اس واقعے سے متعلق حکم شرعی کو مستنبط کرنا اجتہاد ہے۔استنباط کسی چیز سے ہوتا ہے مثلاً پانی اگر کنویں میں موجود ہے تو اس پانی کے استباط کا مطلب کنویں میں سے پانی نکالنا ہے نہ کہ کنویں کے باہر سے پانی حاصل کر لینا۔اسی طرح حکم شرعی کو قرآن و سنت سے نکالنا اجتہاد ہے نہ کہ باہر سے کسی اور خارجی ذریعے سے معلوم کرنا۔پس قیامت تک آنے والے مسائل کا حل کتاب و سنت میں موجود ہے ۔بعض مسائل کے بارے میں قرآن وسنت نے صریح الفاظ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے جبکہ اکثر اوقات قرآن وسنت کا منہج یہ ہے کہ وہ ایسے ضوابط، علل اور اسباب بیان کر دیتے ہیں کہ جن کے ساتھ احکام معلق ہوتے ہیں لہٰذا جو جزئیات بھی کسی کلی ضابطے کے تحت آتی ہوں، ان سب کا حکم ایک جیسا ہو گا ۔ اسی طرح اگر شارع نے کسی چیز کو کسی علت کی وجہ سے حرام کیاہے تو وہ علت جن اشیاء میں بھی پائی جائے گی وہ حرام متصور ہوں گی۔پس قرآن وسنت نے بعض اشیاء کی حرمت تو صریح الفاظ میں بیان کر دی اور اکثر اوقات ایسی علل بیان کر دی ہیں جو کسی چیز کو حرام بنا دیتی ہیں لہٰذاان علل کی وجہ سے جب ہم کسی چیز کو حرام ٹھہرائیں گے تو اگرچہ ہم یہی کہیں گے کہ فلاں چیز نص سے حرام ہوئی ہے اور فلاں قیاس سے ، لیکن دونوں چیزوں کا حکم شریعت یا نصوص میں موجود ہے ایک کا صراحتاً اور دوسری کا قیاساً۔ اسی طرح کا معاملہ ان مسائل کا بھی ہے جن کو مصلحت، سدالذرائع اور عرف وغیرہ جیسے قواعد کی روشنی میں مستنبط کیا جاتا ہے۔قیاس، اجماع، مصلحت، عرف، سد الذرائع، شرائع من قبلنا،استصحاب اور استحسان وغیرہ جیسے قواعد عامہ کی حجیت بھی قرآن وسنت کی نصوص ہی سے ثابت ہے۔علما نے احکام شرعیہ کے استنباط واستخراج میں ان قواعد کے مآخذ یا مصادر ہونے کے دلائل أصول کی کتابوں میں جمع کر دیے ہیں۔
Flag Counter