Maktaba Wahhabi

57 - 106
نہیں ہے۔البتہ‘ جس دائرے میں شریعت خاموش ہے‘ اس میں وہ دین و مذہب‘ تہذیب و تمدن‘ اور عرف و رواج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔‘‘ [1] اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر گوشے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔بعض مسائل کے بارے میں قرآن وسنت نے صریح الفاظ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے جبکہ اکثر اوقات قرآن وسنت کا منہج یہ ہے کہ وہ ایسے ضوابط، علل اور اسباب بیان کر دیتے ہیں کہ جن کے ساتھ احکام معلق ہوتے ہیں لہذا جو جزئیات بھی کسی کلی ضابطے کے تحت آتی ہوں تو ان سب کا حکم ایک جیسا ہو گا ۔ اسی طرح اگر شرع نے کسی چیز کو کسی علت کی وجہ سے حرام کیاہے تو وہ علت جن اشیاء میں بھی پائی جائے گی وہ حرام متصور ہوں گی۔پس قرآن وسنت نے بعض اشیاء کی حرمت تو صریح الفاظ میں بیان کر دی اور اکثر اوقات ایسی علل بیان کر دی ہیں جو کسی چیز کو حرام بنا دیتی ہیں لہٰذا ان علل کی وجہ سے جب ہم کسی چیز کو حرام ٹھہرائیں گے تو اگرچہ ہم یہی کہیں گے کہ فلاں چیز نص سے حرام ہوئی ہے اور فلاں قیاس سے ، لیکن دونوں چیزوں کا حکم شریعت یا نصوص میں موجود ہے ایک کا صراحتاً اور دوسری کا قیاساً، اسی طرح کا معاملہ ان مسائل کا بھی ہے کہ جن کو مصلحت، سدالذرائع اور عرف وغیرہ جیسے قواعد کی روشنی میں مستنبط کیاجاتا ہے۔ جس طرح نصوص قرآن و سنت کی موجودگی میں اجتہادجائز نہیں ہے اسی طرح مجمع علیہ مسائل میں بھی کوئی نیا اجتہاد پیش کرنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس مسئلے کا تعلق عرف یا ظروف و أحوال سے ہواور عرف یا حالات کی تبدیلی سے اس مجمع علیہ مسئلے کی نئی صورت پیدا ہو جائے۔انڈیا سے تعلق رکھنے والے مفکر جناب راشد شاذ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ تمام قدیم فقہی مذاہب و آراء کو آنِ واحد میں یکسر مسترد کرتے ہوئے نئے سرے سے قرآن کی شرح و تفسیر کی جائے اور جدید حالات اور تہذیب و تمدن کے مطابق سارے دین کی ایک ایسی تعبیرِ نو کی جائے کہ جس میں کسی سابقہ عالم دین کا تذکرہ یا حوالہ تک موجود نہ ہو۔ [2] لیکن سوال تویہ ہے کہ جتنا عرصہ ان مصلحین کو دین کی نئی تعبیر میں لگے گاتو اس وقت تک یا تو یہ مصلحین اس دنیا سے رخصت ہو کر قدماء میں شامل ہو چکے ہوں گے یا پھر دنیا بہت ترقی کر چکی ہو گی،لہٰذا آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان مفکرین کی نئی تعبیر دین قدیم بن جائے گی اور اگر اس آئندہ آنے والی نسل کو سابقہ معاصر جدیدیت پسندمفکرین کی فکر سے اتفاق نہ ہوا تو یہی کہیں گے کہ اس قدیم تعبیر دین کو بھی ترک کرتے ہوئے دین کی کسی نئی تعبیر کی تلاش میں سرگرم ہو جاؤ اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔اس طرح چودہ صدیوں میں اگر
Flag Counter