Maktaba Wahhabi

56 - 106
اصول تفسیر‘ میں عمدہ بحث کی ہے۔ [1] لہٰذا اس حدیث کے الفاظ سے یہ استدلال کرنا کہ اجتہادتو محض ذاتی رائے کا نام ہے اور یہ قرآن و سنت کے علاوہ انسان کی عقلی رہنمائی ہے،صریحاً غلط تصورہے۔اجتہاد کی جتنی بھی تعریفیں ہم نے روایت پسند علماء کے حوالے سے پیش کی ہیں ان سب میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ قرآن و سنت اور ان سے ماخوذ مصادر کی روشنی میں حکم شرعی کی تلاش کو اجتہاد کہتے ہیں۔ محض عقلی یا ذاتی رائے حکم شرعی نہیں ہوتی ۔اسی طرح اس حدیث کے الفاظ سے یہ استدلال کرنا کہ پہلے قرآن میں کسی مسئلے کا حل تلاش کیاجائے گا اور اگر قرآن میں نہ ہو تو پھر سنت میں دیکھا جائے گا‘بھی غلط ہے کیونکہ کسی مسئلے کے حل کی تلاش میں قرآن وسنت کو ایک ساتھ رکھا جائے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کا بیان ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کے الفاظ سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ بہت سے احکامات کے بارے میں قرآن وسنت خاموش ہیں اور ان مسائل میں اصل مصدر و مأخذ انسان کی ذاتی رائے و عقل ہے۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ اس حدیث کا معنی صحیح ہے لیکن اس کی سند میں ضعف کی وجہ سے اس کے الفاظ اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے دین کے انتہائی اہم و بنیادی مسائل مثلاًانسانی عقل و رائے بھی مصدر شریعت ہے ‘ کا تعین کیاجائے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:’’(وہ زمانہ)قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میری احادیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو وہ شخص کہے گا ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے پس جس کو اللہ کی کتاب نے حلال ٹھہرا دیا تو ہم بھی اس کو حلال سمجھیں گے اور جس کو ہم نے اللہ کی کتاب میں حرام پایا تو ہم بھی اسے حرام قرار دیں گے(اور یہی ہمارے لیے کافی ہے)۔(خبردار!)بے شک جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہے وہ اسی طرح حرام ہے جیسے کسی شیء کو اللہ نے حرام قرار دیا ہو۔ ‘‘[2] جہاں تک اس مکتبہ فکر کے ہاں اجتہاد کے دائرہ کار کی بات ہے تو جناب جاوید احمد غامدی اور منظور الحسن صاحب اجتہاد کا دائرہ کار طے کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شریعت کے دائرے میں علما اور محققین کا کام صرف اور صرف یہی ہے کہ احکام کے مفہوم و مدعا کو اپنے علم و استدلال کے ذریعے سے متعین کرنے کی کوشش کریں۔اس میں ان کے لیے کسی تغیر و تبدل کی کوئی گنجائش
Flag Counter