ہے۔[1] لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی قسم کے مسئلے میں بھی اگر شرعی حکم کے حوالے سے بحث ہو جائے تو اس کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا: ((فقال کیف تقضی فقال أقضی بما في کتاب اﷲ قال فإن لم یکن في کتاب اﷲ قال فبسنة رسول اﷲ قال فإن لم یکن في سنة رسول اﷲ قال أجتهد رأیی)) [2] ’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :تم کیسے فیصلہ کرو گے تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:جو کتاب اللہ میں ہے ‘ اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اگروہ (مسئلہ صریحاًو تفصیلاً)کتاب اللہ میں نہ ہو ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کروں گا(کیونکہ اس میں صراحت اور تفصیل قرآن کی نسبت زیادہ ہے)۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ(مسئلہ صریحاً و تفصیلاً)سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ہو۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں اپنی رائے (بنانے)میں اجتہاد(یعنی قرآن و سنت میں پوری کوشش و طاقت صرف )کروں گا۔‘‘ اس حدیث کی سندمیں اگرچہ بعض اہل علم نے کلام کیا ہے لیکن یہ روایت اپنے متن کے اعتبار سے ’صحیح‘ ہے۔ [3]حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان کہ’ تم کیسے فیصلہ کرو گے ‘ صرف عقیدے یا اخلاقیات کے جھگڑے کے بارے میں نہ تھا بلکہ ہر قسم کے اختلاف کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا کہ اس کا فیصلہ کیسے کرو گے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکمران یا گورنرکی طرف اکثر و بیشتر‘ معاملات سے متعلقہ تنازعات ہی کے حل کے لیے لوگ رجوع کرتے ہیں۔ بعض معاصرین نے اس روایت کے الفاظ"أجتهد رأیي"سے یہ استدلال کیا ہے کہ اجتہادمحض ایک عقلی رائے کا نام ہے۔ہم اس روایت کے بارے میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ روایت معناً ’صحیح‘ ہے جبکہ اس کے الفاظ کا ثبوت ایک مشکل أمر ہے۔ لہٰذا اس روایت سے من جملہ یہ مسئلہ أخذ کرنا تودرست ہو گا کہ کسی شرعی مسئلہ کو معلوم کرنے کے تین ذرائع ہو سکتے ہیں یعنی قرآن ‘ سنت اور اجتہاد۔لیکن اس روایت کے الفاظ سے کوئی نکتہ أخذ کرناصحیح نہ ہو گا۔ معناً صحیح روایت یعنی حسن لغیرہ سے استدلال کے بارے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’مقدمہ |